٢٧ رمضان ١٤٣١ هـ

اہل الحدیث کون ہیں؟ {فضیلة الشیخ محمد صالح المنجد رحمہ اللہ}

اسلام سوال و جواب ویب سائٹ پر سعودی عرب کے نامور عالم دین شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اہل حدیث کون ہیں؟ جس کا جواب انہوں نے کچھ یوں دیا ملاحضہ کیجیے۔




اہل حدیث کون ہیں اوران کے امتیازات وصفات کیا ہیں ؟


اہل حدیث کون ہیں ؟


الحمد للہ


اہل حدیث کی اصطلاح ابتداہی سے اس گروہ کی پہچان رہی جو سنت نبویہ کی تعظیم اوراس کی نشراشاعت کا کام کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کے عقیدہ جیسا اعتقاد رکھتا اورکتاب وسنت کوسمجھنے کے لیے فہم صحابہ رضي اللہ تعالی عنہم پرعمل کرتے جو کہ خیرالقرون سے تعلق رکھتے ہیں ، اس سے وہ لوگ مراد نہیں جن کا عقیدہ سلف کے عقیدہ کے خلاف اوروہ صرف عقل اوررائ اوراپنے ذوق اورخوابوں پراعمال کی بنیادرکھتے اوررجوع کرتے ہيں۔






اوریہی وہ گروہ اورفرقہ ہے جوفرقہ ناجيہ اورطائفہ منصورہ جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :






( ہروقت میری امت سے ایک گروہ حق پررہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہيں نقصان نہیں دے سکے گا ، حتی کہ اللہ تعالی کا حکم آجاۓ تووہ گروہ اسی حالت میں ہوگا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1920 ) ۔






بہت سارے آئمہ کرام نے اس حدیث میں مذکور گروہ سے بھی اہل حدیث ہی مقصودو مراد لیا ہے ۔






اہل حدیث کے اوصاف میں آئمہ کرام نے بہت کچھ بیان کیا ہے جس میں کچھ کا بیان کیا جاتا ہے :






1 - امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :






امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی بہت اچھی تفسیر اورشرح کی ہے جس میں یہ بیان کیا گيا کہ طائفہ منصورہ جوقیامت تک قائم رہے گا اوراسے کوئ بھی ذلیل نہیں کرسکے گا ، وہ اہل حدیث ہی ہيں ۔






تواس تاویل کا ان لوگوں سے زیادہ کون حق دار ہے جو صالیحین کے طریقے پرچلیں اورسلف کے آثارکی اتباع کریں اوربدعتیوں اورسنت کے مخالفوں کوسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دبا کررکھیں اورانہیں ختم کردیں ۔ دیکھیں کتاب : معرفۃ علوم الحديث للحاکم نیسابوری ص ( 2 - 3 ) ۔






2 - خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :






اللہ تعالی نے انہیں ( اہل حدیث ) کوارکان شریعت بنایا اور ان کے ذریعہ سے ہرشنیع بدعت کی سرکوبی فرمائ‏ تویہ لوگ اللہ تعالی کی مخلوق میں اللہ تعالی کے امین ہیں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی امت کے درمیان واسطہ و رابطہ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کی حفاظت میں کوئ‏ دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ۔






ان کی روشنی واضح اور ان کے فضائل پھیلے ہوۓ اوران کے اوصاف روز روشن کی طرح عیاں ہيں ، ان کا مسلک ومذھب واضح و ظاہر اور ان کے دلائل قاطع ہیں اہل حدیث کے علاوہ ہر ایک گروہ اپنی خواہشات کی پیچھے چلتا اور اپنی راۓ ہی بہترقرار دیتا ہے جس پراس کا انحصار ہوتا ہے ۔






لیکن اہل حدیث یہ کام نہیں کرتے اس لیے کہ کتاب اللہ ان کا اسلحہ اورسنت نبویہ ان کی دلیل و حجت ہے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا گروہ ہیں اوران کی طرف ہی ان کی نسبت ہے ۔






وہ اھواء وخواہشا ت پرانحصار نہیں کرتے اورنہ ہی آراء کی طرف ان کا التفات ہے جوبھی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کی ان سے وہ قبول کی جاتی ہیں ، وہ حدیث کے امین اور اس پرعدل کرنے والے ہیں ۔






اہل حدیث دین کے محافظ اوراسے کے دربان ہيں ، علم کے خزانے اورحامل ہیں ،جب کسی حدیث میں اختلاف پیدا ہوجاۓ تواہل حدیث کی طرف ہی رجوع ہوتا ہے اورجو وہ اس پرحکم لگا دیں وہ قبول ہوتااورقابل سماعت ہوتا ہے ۔






ان میں فقیہ عالم بھی اوراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت کے امام بھی ، اورزھد میں یدطولی رکھنے والے بھی ، اورخصوصی فضیلت رکھنے والے بھی ، اورمتقن قاری بھی بہت اچھے خطیب بھی ، اوروہ جمہورعظیم بھی ہیں ان کا راستہ صراط مستقیم ہے ، اورہربدعتی ان کے اعتقاد سے مخالفت کرتا ہے اوران کے مذھب کے بغیر کامیابی اورسراٹھانا ممکن نہیں ۔






جس نے ان کے خلاف سازش کی اللہ تعالی نے اسے نیست نابود کردیا ، جس نے ان سے دشمنی کی اللہ تعالی نے اسے ذلیل ورسوا کردیا ، جوانہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہيں دے سکتا ، جوانہیں چھوڑ کرعلیحدہ ہوا کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔






اپنی دین کی احتیاط اورحفاظت کرنے والا ان کی راہنمائ کا فقیر ومحتاج ہے ، اوران کی طرف بری نظر سے دیکھنے والے کی آنکھیں تھک کرختم ہوجائيں گی ، اوراللہ تعالی ان کی مدد و نصرت کرنے پرقادر ہے ۔ دیکھیں کتاب : شرف اصحاب الحدیث ص ( 15 ) ۔






3 – شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :






تواس سے یہ ظاہرہوا کہ فرقہ ناجیہ کے حقدارصرف اورصرف اہل حدیث و سنت ہی ہیں ، جن کے متبعین صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں اورکسی اورکے لیے تعصب نہیں کرتے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واحوال کوبھی اہل حدیث ہی سب سے زيادہ جانتے اوراس کا علم رکھتے ہيں ، اوراحادیث صحیحہ اورضعیفہ کے درمیان بھی سب سے زيادو وہی تیمیز کرتے ہيں ، ان کے آئمہ میں فقہاء بھی ہیں تواحادیث کے معانی کی معرفت رکھنے والے بھی اوران احادیث کی تصدیق ،اورعمل کے ساتھ اتباع و پیروی کرنے والے بھی ، وہ محبت ان سے کرتے ہیں جواحادیث سے محبت کرتا ہے اورجواحادیث سے دشمنی کرے وہ اس کے دشمن ہيں ۔






وہ کسی قول کو نہ تومنسوب ہی کرتے اورنہ ہی اس وقت تک اسے اصول دین بناتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو ، بلکہ وہ اپنے اعتقاد اور اعتماد کا اصل اسے ہی قرار دیتے ہیں جوکتاب وسنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم لاۓ ۔






اور جن مسا‏ئل میں لوگوں نے اختلاف کیا مثلا اسماءو صفات ، قدر ، وعید ، امربالمعروف والنھی عن المنکر ،وغیرہ کواللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاتے ہیں ، اورمجمل الفاظ جن میں لوگوں کا اختلاف ہے کی تفسیر کرتے ہیں ، جس کا معنی قران وسنت کےموافق ہو اسے ثابت کرتے اورجوکتاب وسنت کے مخالف ہواسے باطل قرار دیتے ہیں ، اورنہ ہی وہ ظن خواہشات کی پیروی کرتے ہيں ، اس لیے کہ ظن کی اتباع جھالت اوراللہ کی ھدایت کے بغیر خواہشات کی پیروی ظلم ہے ۔ مجموع الفتاوی ( 3/347 ) ۔






اورجس بات کا ذکر ضروری ہے وہ یہ کہ ہر وہ شخص اہل حدیث ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پرعمل پیرا ہوتا اورحدیث کوہرقسم کے لوگوں پرمقدم رکھتا ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم و حافظ اورفقیہ یا عام مسلمان ہی کیوں نہ ہووہ حدیث کومقدم رکھتا ہوتو اسے اہل حدیث کہا جاۓ گا ۔






شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :






ہم اہل حدیث سے صرف حدیث لکھنے اور سننے اور روایت کرنے والا ہی مراد نہیں لیتے ، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی اوراس پرعمل کیا اوراس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی ، اور اسی طرح اس کی ظاہری اورباطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہل حديث کہلا نے کا زيادہ حقدار ہے ۔اوراسی طرح قرآن بھی عمل کرنے والا ہی ہے ۔






اوران کی سب سے کم خصلت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید اورحدیث نبویہ سے محبت کرتے اوراس کی اور اس کے معانی کی تلاش میں رہتے اوراس کے موجبات پرعمل کرتے ہیں ۔ مجموع الفتاوی ( 4/ 95 ) ۔






اوراس مسئلہ میں آئمہ کرام کی بحث و کلام توبہت زيادہ ہے ، آپ مزید تفصیل کے لیے اوپربیان کیے گۓ مراجع سے استفادہ کرسکتے ہیں ، اوراسی طرح مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی چوتھی جلد بھی فائد مند ہے ، اورسوال نمبر ( 206 ) اور ( 10554 ) کا جواب بھی ملاحظہ کریں ۔






واللہ اعلم .






الشیخ محمد صالح المنجد

کیا خود کو سگ مدینہ کہلوانا جائز ہے؟

سوال :کیا اپنے آپ کو سگ مدینہ یعنی ''مدینے کا کتا''کہنا یا لکھنا جائز ہے؟ قرآن و سنت کی رو سے وضاحت فرمائیں؟






جواب :






اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بڑے بہترین انداز میں فرمائی اور اس کو اپنی مخلوقات پر شرف و بزرگی عطا کی۔ عقل و شعور کے ذریعے جانوروں سے ممتاز کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:






''یقینا ہم نے بنی آدم کو عزت عطا اور خشکی اور تری میں ان کو سواری دی اور ہم نے ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا۔ اور انہیں بہت سی مخلوقات پر فضیلت و برتری عنایت کی۔''(اسراء : ۷۰)






جس خالق نے انسان کو احسن تقویم میں تخلیق کیا اور اسے اپنی دیگر مخلوقات پر برتری و منزلت اور اعلیٰ مقام عطا کیا، اگر انسان اس کا صحیح شکر گزار بند ہ بن کر رہتا ہے تو وہ کبھی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس انسان کی مثال کتے سے دی جائے کیونکہ کتا نجس و پلید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کتے کی مثال مکذوبین کی پیش کی ہے یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے اور استہزاء کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مثال کتے سے دی ہے اور اسے بری مثال کہا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:






''(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) ان پر اس آدمی کا قصہ تلاوت کیجئے جس کو ہم نے اپنی آیات دیں ۔ وہ ان میں سے نکل گیا (کافر ہو گیا، اللہ سے پھر گیا ) سو شیطان اس کے پیچھے لگا۔ وہ گمراہوں سے ہو گیا اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں کی وجہ سے اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے زمین پر گرنا چاہا اور اپنی خواہش پر چلا تو اس کی مثال کتے کی طرح ہے۔ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی زبان لٹکائے یا اگر (اپنے حال پر اس کو چھوڑ دے ) تب بھی زبان لٹکائے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔ پس آپ ان پر یہ قصے بیان کر دیں تا کہ وہ غور و فکر کریں جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے ، ان کی مثلا بری ہے۔''(اعراف : ۱۷۵ تا ۱۷۷)






مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ کتے کی مثال ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے مکذبین ہیں۔ اس کی آیات کی تصدیق کرنے والے صحیح مسلمانوں کی یہ مثال نہیں ہو سکتی۔ دوسری بات یہ عیاں ہوئی کہ کتے کی مثال بہت بری ہے۔ اس لئے کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے آپ کو کتا یا کتے کی مثل قرار دیتے ہوئے سگ مدینہ کہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:






''ہمارے لئے بری مثال نہیں ہے وہ آدمی جو اپنے ہبہ میں رجوع کرا ہے (یعنی کسی چیز کو ہمیشہ کے لئے دے دیتا ہے پھر اس سے واپس لے لیتا ہے) اس کتے کی مثال ہے جو اپنی قے کی طرف رجوع کرتا ہے (یعنی قے کرنے کے بعد اس کو چاٹتا اور کھاتا ہے)۔''(بخاری۱۴۴/۳(۲۶۶۳)، احمد۲۱۷/۱، ترمذی۵۹۶/۳، نسائی مع حاشیہ سندھی ۱۱۷/۲)






حدیثِ مبارکہ سے بھی معلوم ہوا کہ کتے کی مثال بہت بری مثال ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ کسی مسلمان کی مثال نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ''سگ'' یعنی کتا کہے کینوکہ کتا اتنا نجس و پلید ہے کہ جس برتن میں منہ ڈال دے، اسے شریعت مطہرہ کی رو سے سات مرتبہ دھونا پڑتا ہے کیونکہ ختم الرسل سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:






''جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا چاہیے۔'' (بخاری مع فتح الباری۱۴۹/۱۔۲۴۰، مسلم مع نووی۳/۱۸۲، مسند ابی عوانہ۲۰۷/۱، نسائی۵۲/۱۔۵۳، ابنِ ماجہ۱۴۹/۱، حمیدی۴۲۸/۲، ابنِ خزیمہ۵۱/۱، احمد۲۴۵/۲، شرح السنہ۷۳/۲، دار قطنی۱/۶۳۔۶۴)






اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے:






''ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا وعدہ کیا لیکن جبرئیل علیہ السلام نہ آئے ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا نہ اس کے قاصد وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک پلا یعنی کتے کا بچہ چارپائی کے نیچے دکھائی دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے عائشہ یہ پلا اس جگہ کب آیا؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم مجھے علم نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا وہ باہر نکالا گیا۔ اس وقت جبرئیل علیہ السلام آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور میں تمہارے انتظار میں بیٹھا تھا لیکن تم نہیں آئے تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا:






''یہ کتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھا، اس نے مجھے روک رکھا تھا جس گھر میں کتا اور تصویر ہو ، ہم وہاں داخل نہیں ہوتے۔''(مسلم۱۹۹/۲، ترمذی، ابو دائود۷۴/۴، مسند احمد ۸۰/۱،۸۳/۳)






مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ کتا اتنا پلید و نجس جانور ہے جہاں یہ ہو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے اور جس برتن میں کتا منہ ڈال دے وہ برتن ساتھ مرتبہ دھونا پڑتا ہے۔ لہٰذا انسان کو اتنے نجس و پلید جانور کے مثال نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی اپنے آپ کو مدینے کا کتا کہنا چاہئے۔ یہ احکامات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ سمیت ہر جگہ کے کگوں سے متعلق ہیں۔






جو لوگ اپنے آپ کو سگ مدینہ کہتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نسبت انتہائی تذلل و عاجزی پر مبنی ہے حالانکہ یہ شیطانی فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہ نسبت تذلل و عجز و انکساری والی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم اس سے محروم نہ ہوتے۔ خیر القرون کے لوگوں میں اس طرح کی نسبت کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ کسی نے اپنے آپ کو مدینے کا کتا کہا ہو۔ یہ نسبت موجودہ دور کے متصوفین اور قبوری لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے اور جو اپنے آپ کو سگ مدینہ کہتے ہیں ، ان کا دماغ اس قدر مفلوج و مائوف ہو چکا ہے کہ وہ کتوں کو بھی ولی اور صاحب کرامت بزرگ سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ جیسا کہ مولوی اشرف علی تھانوی اپنی کتاب امامد المشتاق ص۱۵۸ میں اور حاجی امداد اللہ اپنی کتاب شمائم امدادیہ ص۷۶حصہ دوئم پر لکھتے ہیں:






''جنید بغدادی بیٹھے تھے ایک کتاسامنے سے گزرا ، آپ کی نگاہ اس پر پڑ گئی، اس قدر صاحب کما ہو گیا کہ شہر کے کتے اس کے پیچھے دوڑے ۔ وہ ایک جگہ بیٹھ گیا۔ سب کتوں نے اس کے گرد بیٹھ کر مراقبہ کیا۔''






اسی طرح مولوی منظور احمد شاہ اپنی کتاب مدینة الرسول ص۴۰۸ پر ''مدینہ الرسول کے سگانِ محترم اور چند یادیں''کے عنوان کے تحت جماعت علی شاہ کا واقعہ لکھتا ہے کہ:






''آپ اپنے احباب میں مدینۃ الرسول کی کسی گلی میں کھڑے تھے کہ سامنے سے ایک زخمی کتا چیختا ہوا گزرا۔ اس کتے کو کسی نے پتھر مارا تھا۔ سید صاحب اس منظر کو دیکھ کر بے خود ہو گئے۔ اس بے خودی میں سگ طیبہ کو کلاوے میں لے لیا۔ اپنی دستار سے اس کا خون صاف کیا، پھر ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہا، اے سگ طیبہ ، خدارا بارگاہ رسالت میں میری شکایت نہ کر دینا پھر دیر تک سگ طیبہ کو کلاوے میں لے کر روتے رہے۔''






اسی طرح صفحہ۴۰۹ پر لکھتا ہے:






''۱۹۶۸ء کی بات ہے ۔ پیر سید حیدر علی شاہ نے مجھے مدینة الرسول میں یہ واقعہ سنایا۔ ایک حاضری پر سید نا نے فرمایا، آج مدینة الرسول کے درویشوں کی دعوت ہے، دیگیں پکوا دی گئیں ، بازار سے نئے برتن منگوا لئے گئے۔ عرض کی گئی حضور درویشوں کی آمد کا سلسلہ کب شروع ہو گا؟ فرمایا یہ درویش آئیں گے نہیں تمہیں ان کے حضور جا کر نذرانہ خود پیش کرنا ہو گا۔ فرمایا، یہ روٹیاں ، یہ گوشت مدینہ منورہ کے سگانِ محترم کو پیش کیا جائے۔ چنانچہ تلاش کر کے حکم کی تعمیل کی گئی۔''






اسی طرح ص۴۰۹،۴۱۰ پر ''سگ طیبہ کی نوازش'' کے عنوان کے تحت رقمطراز ہے۔






''ایک حاضری میں مدینہ منورہ سے واپسی کی سار رات سگانِ مدینہ کی زیارت میں صرف کر دی۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ ان کی قدم بوسی کر کے مدینہ سے رخصت ہوں۔ یہ بھی شوق تھا کہ سگ طیبہ کی آواز بھی ریکارڈ کر لوں۔ ٹیپ لے کر گھومتا رہا، کسی سگ نے مجھے اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا۔ جوں ہی کسی سگ طیبہ کے قریب گیا اُس نے مجھ سے نفرت کی اور دور چلا گیا۔ سحری کے قریب ایک سگ طیبہ کو سویا ہوا پیا دور بیٹھ گیا کہ اس کی بیداری پر سلام عرض کروں گا۔ ایک کار کی آواز سے وہ بیدار ہو گیا۔ میں نے قریب جانے کی کوشش کی تو وہ نفرت سے بھاگ گیا۔ میں نے وہیں کھڑے منت و سماجت کی اور خدا کے لئے قدم بوسی کا موقع دے دو۔ صبح مدینہ چھوٹ رہا پھر قسمت کی بات ہے






بات بنتی ہے میری ، تیرا بگڑتا ہے کیا






مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میری اس عاجزانہ درخواست پر وہ رک گیا۔ میں قریب ہوا تو ، قدم بوسی کی، اس کی آواز ٹیپ کی اور صبح کی اذان ہوتے ہی میں وہاں سے چلا تو کم وب بیش ٥٠ قدم سگ طیبہ میرے ساتھ آیا، سگ طیبہ کی اس نوازش کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا کہ مجھے قریب جانے کا موقع دیا اور ٥٠ قدم میرے ساتھ چل کر مجھے شرف بخشا۔''






قارئین کرام !مذکورہ بالا واقعات با حوالہ آپ کے سامنے ذکر کئے ہیں۔ ان سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جو انسان اللہ تعالیٰ کی توحید چھوڑ کر شرک کے دامن میں پناہ لے لیتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح منہج کو ترک کر کے بدعات اور رسوم ورواج سے اپنے آپ کو وابستہ کر لیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی رحمت اُٹھا لیتا ہے، پھر وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے حتیٰ کہ کتوں کو کلاوے میں لے کر روتا پھرتا ہے ، کبھی وہ کتوں کو بوسہ دیتا ہے اور کبھی گلیوں میں کتوں کی محبت سے گھومتا ہو راتیں گزارتا ہے اور کتے کی قدم بوسی اور آواز ریکارڈ کرنے کے لئے مارا مارا پھرتا ہے۔ کبھی کتوں سے عشق سے اپنے عشق کا اظہار کرتے ہوئے انہیں درویش بنا دیتا ہے اور کتوں کے دربار پر نذرانہ لے کر پیش ہوتا ہے۔ یہ گندے کام اپنے آپ کو انسانیت سے خارج کر کے کتاکہنے لگتا ہے۔ کتا خواہ بریلی شریف کا ہو یا دیوبند کا مدینے کا ہو یا مکے کا غرض کسی جگہ کا بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے متعلق شریعت مطہرہ کا یہی حکم ہے کہ وہ جس برتن میں منہ ڈال دے ، وہ برتن پلید ہو جاتا ہے۔ جہاں موجود ہو، وہاں رحمت کا فرشتہ داخل نہیں ہوتا۔ وہ کتے مدینے منورہ کے ہی تھے جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احکامات ارشاد فرمائے بلکہ بعض سگ مدینہ کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کہا جیسا کہ صحیح مسلم ، ابو دائود، ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ:






''سیاہ کتا شیطان ہے۔''






بعض سگ مدینہ وہ ہیں جن کے قتل کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا فرمایا:






''وہ کالا کتا جس کی آنکھوں پر دو نقطے ہوں ، اسے قتل کر دو اس لئے کہ وہ شیطان ہے۔'' (مسلم ، کتاب البیوع)






اسی طرح سگ مکہ معظمہ کو بھی حالت ِ احرام میں قتل کرنا جائز ہے۔ (متفق علیہ )






اسی طرح ایک مقام پر فرمایا:






''جب تم رات کو کتے کی آواز سنو تو اعوذ باللہ پڑھو۔''(ابو دائود، احمد ، حاکم ، بلوغ الامانی۴۶۰/۱۴)






ان تمام مفاسد کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی مثال کو برا قرار دیاہے ، اللہ تعالیٰ نے برا کہا ہے لہٰذا جس کی مثال کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے برا قرار دیا ہو تو کسی انسان کو لائق نہیں کہ وہ ان احکامات کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو کتا کہے۔ اپنے آپ کو کتا کہنا عقل و نقل کے بھی خلاف اور ناجائز و غیر مشروع ہے۔

اتباع اور اطاعت کا تو ہمیں‌اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے لیکن تقلید کا نہیں ۔

اتباع اور اطاعت کا تو ہمیں‌اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے لیکن تقلید کا نہیں ۔



جیساکہ قرآن مجید میں‌متعدد مرتبہ اس کی صراحت کی گئی ہے‌۔


اتباع کا معنیٰ :


تابع ہونا


اتباع کی قرآن سے دلیل:


{قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ } (31) سورة آل عمران






{اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ} (3) سورة الأعراف






{الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} (157) سورة الأعراف






{وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ} (21) سورة لقمان






{اتَّبِعُوا مَن لاَّ يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ} (21) سورة يــس






{وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ العَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ} (55) سورة الزمر






اطاعت کا معنیٰ :


فرمانبردار ہونا


اطاعت کی قرآن سے دلیل :


{قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ} (32) سورة آل عمران






{وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} (132) سورة آل عمران






{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً} (59) سورة النساء






{وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَاحْذَرُواْ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ} (92) سورة المائدة






{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنفَالِ قُلِ الأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بِيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ} (1) سورة الأنفال






{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ} (20) سورة الأنفال






{وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ} (46) سورة الأنفال






{قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ} (54) سورة النــور






{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} (56) سورة النــور






{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ} (33) سورة محمد






{أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ} (13) سورة المجادلة






{وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ} (12) سورة التغابن






{فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} (16) سورة التغابن






تقلید کا معنیٰ :


بغیر غور و فکر کے کسی کی پیروی کرنا (المنجد ص 713)






تقلید کی قرآن سے دلیل :


؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟






اب آپ خود ہی سمجھ لیجئے کہ تابع اور مطیع اور مقلِّد میں‌کیا فرق ہے ۔ اور تابع اور مطیع ہونے کے دلائل تو ہمیں قرآن سے مل گئے لیکن مقلد ہونے کی کوئی دلیل نہیں‌ملی اور نہ ہی ملے گی ۔ ان شاءاللہ

جن ائمہ کی تقلید رائج ہے ان کی تقلید کی تردید میں انہیں‌کے اقوال ملاحظہ ہوں


امام ابوحنیفہ رح فرماتے ہیں :


1۔اِذَا صَحَّ الْحَدِيثُ فَهُوَ مَذْهَبِی (شامی ص150)


کہ صحیح حدیث میرا مذہب ہے


2۔لَا ينْبَغِی لِمَنْ يَعْرِفْ دَلِيْلِی اَنْ يُفْتِیَ بِکَلامِیْ (عقد الجيد)


کسی شخص کو لائق نہیں کہ بغیر دلیل (قرآن اور حدیث اور اجماع) معلوم کرنے کےمیرے کلام پر فتوے دے بلکہ آپ نے یہاں‌تک فرمایا :


3۔اِذَا کَانَ قَوْلُ الصَّحَابَةِ يُخَالِفُهُ قَالَ اُتْرُکُوا قَوْلِی بِقَوْلِ الصَّحابَةِ (عقد الجيد)


اگر میرا کوئی قول صحابہ کے قول کے خلاف ہو تو میرے قول کو چھوڑ کر ان کے قول پر عمل کیا جائے






امام مالک رح فرماتے ہیں :


1۔اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اُخْطِئُ وَاُصِيْبُ فَانْظُرُوا فِی رَأیِ وَافَقَ الْکِتَابَ وَالسُّنَّةَ فَخُذُوهُ وَکُلَّمَا لَمْ يُوَافِقِ الْکِتَابَ وَالسُّنَّةَ فَاتْرُکُوْهُ (الاتقاظ ص 102)


میں‌انسان ہوں میرے فتویٰ میں خطا اور صواب کا احتمال ہے ۔ اگر کتاب و سنت کے مطابق ہو تو عمل کرو ورنہ چھوڑ دو


2۔مَا مِنْ اَحَدٍ اِلَّا هُوَ مَأخُوذٌ مِنْ کَلَامِهِ وَمَرْدُوْدٌ عَلَيْهِ اِلَّا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (اليواقيت ج1 ص96)


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر ایک کا فتویٰ ردّ و قبولیت کی صلاحیت رکھتا ہے






امام شافعی رح فرماتے ہیں :


اِذَا قُلْتُ قَوْلاً وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خِلَافَ قَوْلِی فَمَا يَصَحُّ مِنْ حَدِيْثِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَوْلیٰ فَلَا تُقَلِّدُوْنِیْ (عقد الجيد ص54)


جب میں‌کوئی فتویٰ دوں اور حدیث رسول اس کے خلاف ہو تو میرے فتویٰ کو چھوڑ کر حدیث صحیح پر عمل ہو اور میری تقلید نہ کرو






امام احمد رح فرماتے ہیں :


لَا تُقَلِّدُوْنِیْ وَلَا تُقَلِّدَنَّ مَالِکاً وَلَا الْاَوْزَاعِیَ وَلَا النَّخْعِیَّ وَلَا غَيْرَهُمْ وَخُذِ الْاَحْکَامَ مِنْ حَيْثُ اَخَذُوا مِنَ الْکِتَابَ وَ السُّنَّةِ (اليواقيت جلد 2 ص96)


نہ میری تقلید کرو اور نہ امام مالک ، اوزاعی ، نخعی اور نہ کسی اور کی بلکہ قرآن اور حدیث سے احکام لو






شاہ عبدالقادر جیلانی رح فرماتے ہیں :


اِجْعَلِ الْکِتَابَ وَالسُّنَّةَ اِمَامَکَ وَانْظُرْ فِيْهِمَا بِتَأمُّلٍ وَتَدَبُّرٍ وَلَا تَغْتَرَّ بِالْقَالِ وَالْقِيْلِ وَالْهَوَسِ (فتوح‌الغيب مقاله ص36)


قرآن اور حدیث کو اپنا امام بناؤ ، انہیں میں‌غور و فکر کرو کسی کے خیال اور رائے پر مغتر نہیں ہونا چاہیئے

تقلید، معنی/تعریف/ابتدا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
لفظی معنی:

تقلید کے معنی ہیں سوچے سمجھے بغیر یا بلا دلیل کسی کی پیروی کیجائے۔ یہ لفظ قلادہ سے بنا ہےاور قلادہ اس پٹے کو کہتے ہیں جو جانوروں کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہےاور اس میں رسی ڈال کر جانوروں کو کھینچا جاتا ہے۔

اصطلاحی معنی:

اصطلاح میں تقلید کے معنی ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے قول پر، اسکی دلیل معلوم کیے بغیر عمل کرے "المعجم الوسیط، الاحکام فی اصول الاحکام ص 835"

قابلِ تقلید کون؟

رسول اکرم فدا ابی و امی صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کسی بھی انسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی تقلید یا اتباع کا کسی کو حکم دے اور نہ کسی کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ کسی بھی انسان کے قول یا عقیدے کی دلیل جانے بغیر اس کی تقلید یا اتباع کرے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کہ آپ کی تقلید آپ کی اتباع اور آپ کی اطاعت فرض ہے اور دنیا کا کوئی بھی انسان آپ سے دلیل طلب کرنے کا مجاز نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خود دلیل ہیں، لیکن آپ کی حیثیت محمد بن عبداللہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی حیثیت سے ہے اور اللہ تعالٰی نے اپنے ساتھ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت اور اتباع کو بھی فرض قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا کہ ائمہ اربعہ میں سے نہ کسی نے کسی کو اپنی تقلید کا حکم دیا ہے اور نہ وہ دے سکتا تھا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتا تو دائرہ اسلام سے

خارج ہو جاتا، اس کامسلمانوں کا امام ہونا تو دور کی بات ہے۔

تقلید کی ابتداء:

یہی وجہ ہے کہ جن عظیم شخصیتوں سے فقہی مذاہب منسوب ہیں ان میں سے ہر ایک نے ایک سے زیادہ مواقع پر یہ صراحت کردی ہے کہ ان کا مذہب کتاب و سنت ہی ہے اور ان کے جن اقوال کی دلیل کسی کو نہ معلوم ہو اس کے لئے ان پر عمل کرنا جائز نہیں اور دلیل سے مراد اللہ کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے۔



ائمہ اربعہ کی طرح ان کے عالی مقام شاگردوں کا دامن بھی اپنے ائمہ کی تقلید سے پاک ہے کیونکہ اگر وہ ان کے مقلد ہوتے تو ان سے اختلاف نہ کرتے جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ہر امام کے شاگردوں اور ان کے شاگردوں کے ان اختلافات کو جمع کیا جائے جو معتبر سندوں کے ساتھ مستند کتابوں میں مدون ہیں تو کئی جلدوں میں کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ دراصل کسی ایک امام کی تقلید چوتھی صدی ہجری سے شروع ہوئی پھر بھی ہر مسلک سے نسبت رکھنے والوں میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جو اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔



نوٹ: یہ اقتباس ڈاکٹر سید سعید عابدی ۔ جدہ کے مقالہ "تقلید، کتاب و سنت کی روشنی میں" سے لیا گیا جو جمعہ 28 نومبر 2008 کو روشنی ۔ اردو نیوز میں شائع ہوا۔