٠٥‏/٠٩‏/٢٠١٠

نظریات صوفیاء پر تھوڑا سا تبصرہ

قرآن تو پورا کا پورا شرک ہے ۔ توحید تو ہمارے کلام میں ہے ۔

بحوالہ : الرسائل و المسائل ، ابن تیمیہ ، ج : 1 ، ص : 145


فصوص الحکم ، ابن عربی کی تصنیف کردہ کتاب ہے جو ابن عربی کے باطل عقائد اور کفر و شرک کا مجموعہ ہے۔

ابن عربی رقمطراز ہے :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے فصوص الحکم کتاب دی اور کہا : اسے لے کر لوگوں کے پاس نکلو ، وہ مستفید ہوں گے ۔

ابن عربی کہتا ہے :

ویسا ہی ہوا جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تھا اور میرے خواب کی تعبیر مکمل ہو گئی ۔ اس کے بعد ابن عربی یوں خطاب کرتا ہے :

فمن اللہ ، فاسمعوا :: والی اللہ فارجعوا

بحوالہ : فصوص الحکم ، ص : 40 ، شرح بالی ، مطبوعہ 1309ھ ۔



اہلِ تصوف کا ایک اور پیشوا ابن عجیبہ فاطمی لکھتا ہے :

علمِ تصوف کے موسس و بانی خود نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے تصوف کا علم بذریعہ الہام عطا کیا۔ جبریل علیہ السلام پہلے علمِ شریعت لے کر نازل ہوئے ، جب یہ علم مکمل ہو گیا تو دوسری بار علمِ حقیقت لے کر نازل ہوئے ۔ ان دونوں علوم سے الگ الگ قسم کے لوگ بہرہ ور ہوئے ۔ جس نے سب سے پہلے اس علم کا اظہار کیا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں ۔ آپ سے یہ علم حضرت حسن بصری نے حاصل کیا۔

بحوالہ : ایقاظ الھمم فی شرح الحکم ، ابن عجیبہ ، جلد 1 ، ص 5 ، مطبوعہ : 1913ھ ۔



نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو علم چھپانے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے :

من کتم علماََ یعلمہ ایاہ الجم یوم القیامہ بلجام من نار

جو علم کو چھپائے گا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔

(ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ)



تصوف کا ایک اور عظیم پیشوا ابن فارض ( عمر بن ابی الحسین علی بن المرشد بن علی شرف الدین ، متوفی : 632ھ ) ہے ۔ ابن فارض کے نزدیک خالق اور مخلوق، رب اور بندہ ، اللہ اور ایک معدوم شئے میں کوئی فرق نہیں ۔

اللہ کی ذات تمام موجود اور غیر موجود اشیاء میں موجود ہے ، لہذا ایک معدوم شئے بھی ابن فارض کا رب ہے ۔

یعنی ابن فارض کا رب ایک جانور بھی ہے اور ایک بےجان پتھر بھی ، انسان بھی ہے اور جنات بھی ، ایک بت بھی ہے اور دل و دماغ میں پیدا ہونے والا وہم و گمان بھی ۔

فطری اور منطقی طور پر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک گناہگار جو گناہ کرتا ہے دراصل وہ گناہ نہیں کرتا بلکہ اس کی شکل میں خود اللہ گناہ کرتا ہے ، اس لیے کہ وہ انسان ہے اور انسان بھی عین اللہ ہے ۔

اسی طرح ایک بھیڑیا کسی جانور کا جب گوشت کھاتا ہے تو فی الواقع اس کی صورت میں اللہ اس جانور کا گوشت کھا رہا ہے ، کیونکہ مذہبِ تصوف میں حیوان بھی اللہ ہے ۔

ابن فارض کے یہ عقائد اس کی مشہور تصنیف " تائیہ " میں ہیں ۔



ابن فارض خود کو ذاتِ الٰہی کہتے ہوئے نہیں شرماتا ۔

آگے بڑھ کر اپنے عظیم صفات و کمالات میں یہ بھی اضافہ کرتا ہے کہ جتنے بھی پیغمبر وجود میں آئے وہ سب ابن فارض کی ذات تھی ۔

اسی طرح نوعِ انسانی کے بابائے اول حضرت آدم (علیہ السلام) اور جن جن فرشتوں نے ان (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تھا وہ سب کے سب ابن فارض ہی کی ذات تھی ۔

وفی شھدت الساجدین لمظھری :: فحققت انی کنت آدم سجدتی

(ترجمہ : میں نے سجدہ کرنے والوں کو دیکھا کہ میرا سجدہ کر رہے ہیں ، تو یہ ثابت ہو گیا کہ میں ہی آدم تھا جس کو سجدہ کیا گیا )



اس شعر کی تشریح ، صوفیت کا ایک اور پیشوا قاشانی یوں کرتا ہے :

یعنی میں نے دیکھا کہ ملائکہ میرا سجدہ کر رہے ہیں ، لہذا مجھے معلوم ہو گیا کہ آدم کے سامنے فرشتوں نے جو سجدے کیے تھے ، وہ سجدے دراصل مجھے ہی کیے گئے تھے ۔ ملائکہ میرے سامنے سجدے کرتے ہیں اور وہ میری صفات میں سے ایک صفت رکھتے ہیں لہذا ہر سجدہ کرنے والا میری ہی صفت سے ہم آہنگ ہے جو میری ہی ذات کے لیے سجدہ ریز ہوتا ہے ۔

بحوالہ : کشف الوجوہ الغر ، شرح الدیوان کا حاشیہ ، جلد 2 ، ص 89 ، مطبوعہ 1310ھ ۔



مذہبِ تصوف کا ایک نامور پیشوا تلسمانی لکھتا ہے :

ہمارے دین میں ماں اور بہن سے رشتہ جائز ہے اور جو لوگ اس کو حرام قرار دیتے ہیں وہ محجوب اور بےعقل ہیں ۔

بحوالہ : مجموعہ الرسائل و المسائل ، ابن تیمیہ ۔ ج 1 ، ص 177 ۔



ابن عربی ( محمد بن علی بن محمد الخاتمی الطائی الاندلسی ، متوفی : 638ھ ) کائنات کی ہر موجود اور غیر موجود شئے کو اللہ تعالیٰ کی ذات قرار دیتا ہے۔

سبحان من اظھر الاشیاء وھو عینھا بحوالہ : الفتوحات المکیہ ، ابن عربی ۔ ج 2 ، ص 204 ۔

اور وہ (ابن عربی) اللہ تعالیٰ کی تعریف یوں کرتا ہے :

پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اشیاء کوظاہر کیا اور وہی ان اشیاء کا ظاہر و باطن ہے ۔

بحوالہ : فصوص الحکم ، شرح قاشانی ، ص 382 ۔



تصوف کا ایک اور عظیم پیشوا جیلی لکھتا ہے :

حق تعالیٰ شانہ کی ذات جس چیز میں بھی ظاہر ہو جائے اس کی عبادت و پرستش واجب ہے ۔اور اس کی ذات کائنات کے ہر ذرہ میں ظاہر ہے ۔

بحوالہ : الانسان الکامل ، جیلی ۔ ج 2 ، ص 83 ۔



مذہبِ تصوف کا شیخ اکبر ، ابن عربی ۔۔۔ کتاب فصوص الحکم میں لکھتا ہے۔



جب کوئی مرد عورت سے محبت کرتا ہے ، جسمانی ملاپ کا مطالبہ کرتا ہے ۔ یعنی محبت کی آخری حد جو محبت کا آخری ہدف ہوتا ہے ۔ مرد و عورت کے جسمانی ملاپ سے بڑھ کر کوئی اور عنصری ملاپ کی صورت نہیں ہوتی ، اس لیے شہوت عورت کے پورے بدن میں پھیل جاتی ہے ۔ اسی لیے جنسی ملاپ کے بعد غسل کا حکم دیا گیا ہے ، چونکہ غسل سے طہارت بھی پورے جسم کو عام ہوجاتی ہے جس طرح حصولِ شہوت کے وقت مرد اس کے اندر مکمل طور پر فنا ہو گیا تھا ۔ لہذا حق (اللہ تعالیٰ) اپنے بندہ پر بڑا غیور ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ لذت حاصل کرے ۔ اسی لیے غسل کا حکم دے کر اسے پاک کر دیا ۔ تاکہ اس کو یہ پتا چلے کہ اس نے اس عورت کے ساتھ جنسی ملاپ جو کیا ہے ، دراصل اس عورت کی شکل میں اللہ ہی تھا ۔



جب کوئی شخص مرد عورت کے اندر حق کا مشاہدہ کرتا ہے عورت میں ایک جذباتی اور انفعالی صورت میں رب کا مشاہدہ کرتا ہے اور جب اپنے اندر رب کا مشاہدہ کرتا ہے تو فاعل کی شکل میں کرتا ہے ۔ اور انفعالی صورت میں مشاہدہ نہیں کرتا ۔ اسی لیے عورت جب جنسی ملاپ کرتی ہے تو اللہ بدرجہ اتم اس کے اندر ظاہر ہوتا ہے ، کیونکہ اس کی حالت فاعل اور منفعل دونوں کی ہوتی ہے ۔



لہذا مرد اس وقت اپنے رب کو اس عورت کی شکل میں زیادہ اچھی طرح جلوہ گر پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں سے محبت کی ۔ اسی لیے عورتوں کے اندر اللہ کا مشاہدہ زیادہ اچھی طرح پاتا ہے ۔ اور حق کا مشاہدہ تو مادہ کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ حق (اللہ تعالیٰ) کا مشاہدہ عورتوں کے اندر زیادہ سے زیادہ اور مکمل طور پر انجام پاتا ہے ، خاص طور پر اس وقت جب وہ جنسی ملاپ کر رہی ہو۔

بحوالہ : فصوص الحکم ، ابن عربی ۔ ج 1 ، ص 317 ۔





قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ :



دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے !

(سورہ اٰل عمرٰن 3 ، آیت : 19)



اللہ کے بنائے ہوئے اور نازل کیے ہوئے دین کا نام بہرحال "تصوف" نہیں ہے !!



نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور خیرالقرون کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) کی ساری زندگی کتاب و سنت سے ہی عبارت تھی۔ ان تمام سے ایسا کوئی قول ثابت نہیں کہ انہوں نے خود کو کبھی تصوف نامی کسی مذہب سے جوڑا ہو۔



عقیدۂ حلول کے مطابق :

انسان اپنے آئینۂ دل کو اتنا لطیف اور صاف بنا لیتا ہے کہ خدا کی ذات خود اس کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے یا حلول کر جاتی ہے۔



خدا کا کسی انسان کے جسم میں حلول کر جانے کا عقیدہ یہود و نصاریٰ میں بھی پایا جاتا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَقَالَتِ الْيَھودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّہ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّہ ذَلِكَ قَوْلُھم بِھفْوَاھمْ يُضَاھؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ

اردو ترجمہ : طاہر القادری

اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصارٰی نے کہا: مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کا (لغو) قول ہے جو اپنے مونہہ سے نکالتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے قول سے مشابہت (اختیار) کرتے ہیں جو (ان سے) پہلے کفر کر چکے ہیں

( سورہ التوبہ : 9 ، آیت : 31 )



ایک دوسرے مقام پر قرآن ، اس عقیدہ کی مزید وضاحت یوں کرتا ہے:

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ ھنَّ اللّہ ھوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ

اردو ترجمہ : طاہر القادری

درحقیقت ایسے لوگ کافر ہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اﷲ ہی مسیح ابنِ مریم (علیہما السلام) ہے

( سورہ المآئدہ : 5 ، آیت : 72 )



اسلام میں "عقیدۂ حلول" کی داغ بیل عبداللہ بن سبا یہودی نے ڈالی تھی۔ قرون اولیٰ میں یہودیوں کو جو ذلت نصیب ہوئی اس کا انتقام لینے کے لیے عبداللہ بن سبا منافقانہ طور پر مسلمان ہوا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ عملی میدان میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی سکت اب یہودیوں میں باقی نہیں رہ گئی ہے ، لہذا مسلمانوں کے عقائد میں تفرقہ کے بیج بو کر اس نے تشتت و انتشار پیدا کر دیا۔



عبداللہ بن سبا کا یہ عقیدہ حلول ، اس کے پیروکاروں نصیریہ ، کیسانیہ ، قرامطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیا کے اندر داخل ہو گیا !



حسین بن منصور حلاج



حسین بن منصور حلاج (م:309ھ) اس عقیدہ کے علمبردارِ اعلیٰ تسلیم کئے جاتے ہیں منصور حلاج کا دعویٰ تھا کہ : خدا اس کے اپنے اندر حلول کر گیا ہے !!



منصور حلاج اپنے اسی عقیدے کے سبب " انا الحق " کا نعرہ لگاتا تھا۔

اس کے اپنے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں :



عَقَدَ الخلائقُ في العقائدا

وانا اعتقدت جميع ما اعتقدو

الٰہ کے بارے میں لوگوں کے بہت سے عقیدے ہیں اور میں ان سب عقیدوں پر عقیدہ رکھتا ہوں۔



كفرت بدين اللہ والكفر واجب

لديّ وعند المسلمين قبيح

میں اللہ کے دین سے کفر کرتا ہوں اور یہ کفر میرے لیے واجب ہے جبکہ تمام مسلمانوں کے نزدیک یہ برا ہے۔

ديوان الحلاج:ص(34)



حسین بن منصور سمجھانے کے باوجود بھی جب اپنے اس عقیدہ پر مصر رہا تو بالآخر اسے خلیفہ بغداد "المقتدر باللہ" نے 24۔ذی قعدہ 309ھ (914 سن عیسوی) کو بغداد میں قتل کرا دیا اور اس "الحق " کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا۔



حلاج کے متعلق ابن عربی نے اپنی کتاب "فتوحات مکیہ" میں ایک اور واقعہ نقل کیا ہے کہ :

مشہور بزرگ شیخ ابوعمرو بن عثمان مکی ، حلاج کے سامنے سے گزرے اور پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو؟

حلاج نے جواب دیا : قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں۔

یہ سن کر ابوعمرو بن عثمان مکی نے بد دعا کی اور انہی کی بد دعا کا نتیجہ تھا کہ حلاج قتل کر دیا گیا۔



اتنے شدید جرم کے باوجود صوفیاء کی اکثریت نے حلاج کے حق پر ہونے اور حلاج کو سزا دینے والوں کے باطل پر ہونے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ ذیل میں ان صوفیاء کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں۔



حضرت علی ہجویری

انہیں میں سے مستغرق معنیٰ ابوالغیث حضرت حسین بن منصور حلاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سرمستان بادۂ وحدت اور مشتاقِ جمالِ احدیث گزرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔

بحوالہ:کشف المحجوب ، ص:300



مولانا روم

گفت فرعونے اناالحق گشت پست

گفت منصورے اناالحق گشت مست

لعنتہ اللہ ایں انارا درقفا

رحمتہ اللہ ایں انارا درقفا

اردو ترجمہ : عبدالرحمٰن کیلانی

فرعون نے "انا الحق" کہا تو ذلیل ہو گیا اور منصور نے "انا الحق" کہا (عشق و محبت میں) تو مست قرار پایا۔ فرعون کی خودی کے لیے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے۔

بحوالہ :مثنوی روم



خواجہ نظام الدین اولیاء ، دہلی

خواجہ نظام الدین اولیاء (م:725ھ) حلاج کی بزرگی کے اس قدر قائل تھے کہ آپ نے فرمایا :

ذکر مشائخ کا ہو رہا تھا۔ بندہ نے عرض کیا کہ سیدی احمد (سید احمد رفاعی) کیسے تھے؟ آپ نے فرمایا : وہ بزرگ شخص تھے۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کو بزرگی سے یاد کرتے ہیں تو اسے سیدی کہتے ہیں۔ وہ شیخ حسین بن منصور حلاج کے زمانے میں تھے۔ جب کہ ان کو جلایا گیا اور ان کی خاک دجلہ میں ڈالی گئی۔ سیدی احمد نے ذرا سی خاک اس میں سے تبرکاً اٹھا کر کھالی تھی۔ یہ ساری برکتیں اسی سبب سے انہیں حاصل تھیں۔

بحوالہ :فوائد الفواد ، ملفوضات نظام الدین اولیاء صاحب ، مرتبہ: خواجہ حسن دہلوی ، ص:471



احمد رضا خان فاضل بریلوی

فاضل بریلوی صاحب سے سوال کیا گیا :

حضرت منصور و تبریز و سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے ، لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور فرعون ، شداد ، ہامان و نمرود نے دعویٰ کیا تھا تو مخلد و النار ہوئے ، اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب :

" ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا ' انی انا اللہ' میں ہوں رب اللہ سارے جہاں کا ، کیا درخت نے کہا تھا؟ حاشا بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجرِ موسیٰ ہوتے ہیں۔"

بحوالہ :احکام شریعت ، ص:93



حلاج کے متعلق اب دوسرا رُخ ملاحظہ فرمائیں جس سے حلاج کے کفر کی وضاحت ہوتی ہے۔



امام ابن تیمیہ

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حلاج فنا میں ڈوب گیا اور باطنی حقیقت سے معذور تھا، مگر ظاہری طور پر اس کا قتل واجب تھا اور کچھ دوسرے اسے شہید ، فنا فی اللہ ، موحد اور محقق کہتے ہیں۔ یہ لوگ شریعت کی پرواہ نہیں کرتے۔

آگے چل کر امام ابن تیمیہ واضح الفاظ میں لکھتے ہیں:

حلاج اپنے کفر کی وجہ سے قتل کیا گیا ، وہ قرآن کا معارضہ کرتا تھا ، اس کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر کسی کا حج فوت ہو جائے تو اپنے ہاں کعبہ بنا کر اس کا طواف کر سکتا ہے اور حج کے سوا تمام رسوم ادا کر سکتا ہے اور حج پر جتنی رقم خرچ ہو سکتی ہو اس کو صدقہ دے سکتا ہے۔

امام محترم مزید لکھتے ہیں :

جنید (بغدادی) ، عمرو بن عثمان مکی اور ابو یعقوب (رحمہم اللہ) جیسے جلیل القدر مشائخ نے حلاج کی مذمت کی ہے۔ اگر کوئی شخص حلاج کے متعلق حسنِ ظن رکھتا ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ اصل حالات سے آگاہ نہیں ہے۔

بحوالہ : مجموعہ الرسائل الکبریٰ ، ج:2 ، ص:97 تا 99



تصوف کیا ہے ؟ کیا یہ عین اسلام ہے یا ضد اسلام ہے؟ اس کی چھان بین کرنے کے لئے ایسی ہستیوں کے ملفوظات سے رجوع ہوتے ہیں جو اہل تصوف کہلاتے تھے۔

----------------------------

فرمایا کہ ایک وقت حضرت خواجہ ابراہیم ابن ادھم رحمہ اللہ علیہ راستہ مین چلے جاتے تھے کہ آواز نوحہ کی ایک طرف سے آئی فوراً رانگ گرم کرکے اپنے کانون مین ڈال لیا اور بہرے ہوگئے۔

(انیس الارواح صفحہ 31، ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری)



گانے بجانے کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کانوں میں انگلیاں دینے پر اکتفا فرماتے تھے۔

فرمایا کہ جس روز حضرت خواجہ ابرا ھیم ا بن ادہم بلخی رحمہ اللہ حکومت اور سلطنت سے تائب ہوئے تو جس قدر غلام تھے سب کو اپنے روبرو آزاد کیا اور بارادہ حج خانہ کعبہ کی راہ لی اور فرمایا کہ حج کو ہر شخص پیرون کے بل جاتا ہے مجکو چاہئے کہ سر کے بل اس راہ کو طے کرون چنانچہ وقت سفر حج جو قدم کہ رکھتے تھے ایک دوگانہ نفل شکرانہ ادا فرماتے تھے حتی کہ چودہ برس کی مدت مین بلخ سے خانہ کعبہ تک پہونچے تو اس مقام پر خانہ کعبہ کو نہ پایا نہایت متحیر ہوئے اسی حال مین ہاتف غیبی نے آواز دی کہ اے ابراہیم ٹھیرو اور صبر کرو کہ خانہ کعبہ ایک ضعیفہ کی زیارت کو گیا ہے ابھی آیا جاتا ہے خواجہ یہ آواز سن کر متحیر ہوئے اورعرض کیا کہ آلہی وہ ضعیفہ کون ہین حکم ہوا کہ جنگل مین ایک ضعیفہ ہے خواجہ علیہ رحمہ روانہ ہوئے تاکہ ان ضعیفہ کی زیارت سے مشرف ہوں جب جنگل مین پہونچے تو حضرت رابعہ بصری علیہا الرحمہ کو دیکھا اور دیکھا کہ خانہ کعبہ ان کے گرد طواف کر رہا ہے حضرت ابراہیم بن ادہم علیہ الرحمہ کو غیرت معلوم ہوئی اور حضرت رابعہ بصری علیہا الرحمہ کو پکارا اور کہا کہ یہ کیا شور تم نے ڈالا ہے رابعہ بصری علیہا رحمہ نے فرمایا کہ یہ شور مین نے نہین اٹھایا ہے۔ شور تم نے جہان مین برپا کیا ہے کہ چلتے چلتے چودہ برس مین خانہ کعبہ تک پہونچے اور پھر بھی اس کو آرزو کے ساتھ نہ پایا جب حضرت ابراہیم ادہم نے یہ سنا فرمایا کہ اے رابعہ تم کو آرزو خانہ کعبہ کی تھی سو تمہارے پاس موجود ہو گیااور ہم کو آرزوئے ملاقات صاحب خانہ کی ہے لہذا وہ ہم سے محجوب کیا گیا۔

(انیس الارواح صفحہ 17,18، ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری)



یہاں پر واقعہ صلح حدیبیہ یاد کر لیں۔



حضرت بایزید بسطامی (ابویزید طیفور بن عیسی بسطامی) کے بارے میں حضرت خواجہ جنید بغدادی فرماتے ہیں:

ابو یزید منا بمنزلہ جبرئیل فی الملایکہ

ابویزید ہم میں ایسے ہیں جیسے فرشتوں میں جبرائیل



حضرت بایزید بسطامی خود فرماتے ہیں

سبحانی واعظم شانی

میں پاک ذات ہوں میری شان بہت بڑی (اعظم) ہے

حضرت علی ہجویری فرماتے ہیں کہ یہ کہنا ان کی گفتار کا نشانہ ہے اور درحقیقت یہ کہنے والا حق تعالی ہی پردہ عبد میں ہے۔

(کلام المرغوب ترجمہ کشف المحجوب صفحہ 443)



حضرت بایزید بسطامی کے مزید "ارشادات":

خضت بحرا و وقف الانبیا بساحلہ

میں نے سمندر میں غوطہ لگایا اور انبیا ساحل تک رہے



ملکی اعظم من ملک اللہ

میری بادشاہت اللہ کی بادشاہت سے بڑی ہے



ما فی جبتی الا اللہ

میرے جبے میں اللہ کے سوا کچھ نہیں



لوائی ارفع من لواء محمد

میرا جھنڈا محمد کے جھنڈے سے بلند ہے



یہ تصوف کی دنیا کی باتیں ہیں جن کا اسلام سے تعلق واضح نظر آر ہا ہے۔



اس کے بعد عشق کے بارے مین گفتگو ہونے لگی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ عاشق کا دل محبت کا آتشکدہ ہے پس جو کچھ اس آتشکدہ(بھٹی) میں پڑ جاتا ہے جلکر خاک ہو جاتا ہے کسواسطے کہ کوئی آگ عشق و محبت کی آگ سے بڑہکر نہین ہے اسکے بعد فرمایا کہ ایک وقت خواجہ بایزید بسطامی رحمہ اللہ مقام قرب مین تشریف لیگئے ہاتف نے آواز دی کہ اے بایزید آج تمہاری خواستگاری اور ہماری بخشش و عطا کا وقت ہے مانگو کیا مانگتے ہو میں تم کو دونگا خواجہ نے فوراً سجدہ مین سر جھکا یا اور کہا کہ بندہ کو خواستگاری سے کیا کام بادشاہ کی بخشش و انعام و اکرام جسقدر ہو بندہ اس مین راضی ہے پھر آواز آئی کہ اے بایزید ہم نے تجکو آخرت کی خوبی اور رستگاری عطا کی۔ بایزید نے عرض کیا کہ آلہی آخرت تو دو ستون کا بندی خانہ ہے پھر آواز آئی کہ اے بایزید اچھا ہم نے بہشت اور دوزخ اور عرش اور کرسی جو کچھ ہماری مملکت ہے تجکو دی۔ عرض کیا خیر پھر ندا آئی کہ اچھا تمہارا کیا مطلب ہے کچھ مانگو تو ہم دین عرض کیا کہ آلہی جو میرا مطلب ہے وہ تو خود جانتا ہے آواز آئی کہ اے بایزید تو ہم کو ہم سے مانگتا ہے اگر ہم تجکو تجھسے مانگین تو تو کیا کریگا۔ جیسے ہی کہ آواز آئی خواجہ نے قسم کھا کر عرض کی کہ قسم ہے تیرے عزت و جلال کی اگر تو مجکو کل قیامت مین طلب کریگا اور آتش دوزخ کے سامنے کھڑا کریگا تو حاضر ہونگا اور کھڑا ہو کر ایسی آہ سرد کھینچوں گا کہ دوزخ کی حرارت زائل ہو جائیگی حتی کہ کچھ نہ رہیگی کیونکہ آتش محبت کے سامنے اسکی کیا اصل ہے جب یزید نے یہ فرمایا ندا آئی کہ اے بایزید ہرچہ جستی بافتی (جس چیز کی تجھ کو تلاش تھی تو نے پا لی)

(ترجمہ دلیل العارفین صفحہ 97 ملفوظات خواجہ معین الدین چشتی مرتبہ خواجہ بختیار کاکی)



اللہ تعالی کا عرش و کرسی او رتمام مملکت کا دیا جانا اور آہ سرد سے آتش دوزخ کی حرارت کو زائل کر دینا قابل غور ہے اور یہ عین اسلام بتایا جاتا ہے۔

خواجہ بایزید نے فرمایا کہ مین مدتون خانہ کعبہ کا طواف کرتا رہاجب مجکو قرب و حضوری عطا کی گئی اسوقت خانہ کعبہ نے میرے گرد طواف کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خواجہ بایزید بسطامی سے لوگون نے پوچھا کہ آپ نے طریقت مین اپنا سلوک کہاں تک پہنچایا ہے فرمایاکہ مین نے یہان تک اپنا سلوک پہنچایا ہے کہ جب مین اپنی دو انگلیون کے درمیان نظر کرتا ہون تو تمام دنیا و مافیہا کو اسمین دیکھتا ہون۔

ترجمہ دلیل العارفین صفحہ 99-100 ملفوظات خواجہ معین الدین چشتی مربہ خواجہ بختیار کاکی)



خانہ کعبہ کا خواجہ صاحب کو طواف کرنا اور ان کا دو انگلیوں کے درمیان دنیا و مافیہا کا دیکھنا توجہ طلب ہے۔



ایک دفعہ شیخ علی مکی رحمہ اللہ علیہ نے خواب مین دیکھا کہ عرش اٹھائے لئے چلا جا رہا ہوں۔ جب صبح ہوئی تو جی مین خیال کیا کہ مین یہ خواب کسکے سامنے بیان کرون جو تعبیر پاوﺅن۔ پھر جی مین کہا کہ بایزید بسطامی سے چل کے دریافت کر۔ اسی فکر مین جب گھر سے باہر نکلا دیکھا تو بسطام مین ایک شور برپا تھا اور خلق رو رہی تھی مین حیران ہو کر کھڑا ہو گیا پوچھا کیا حال ہے کہا خواجہ بایزید علیہ الرحمہ نے انتقال کیا۔ شیخ علی نے سنتے ہی ایک نعرہ مارا اور زمین پر گر پڑے۔ پھر نعرہ مارتے ہوئے بایزید کے جنازہ کے پاس تک پہونچے مگر خلق کے اژدحام سے وہانتک پہونچ نہین سکتے تھے مگر شیخ علی ہزار حیلہ و دشواری سے جنازہ تک آئے اور کندھا دیا۔ بایزید نے آواز دی کہ اے علی جو تو نے خواب دیکھا تھا اسکی یہی تعبیر ہے یہی جنازہ بایزید عرش خدا ہے کہ جو تو سر پر لیے جا رہا ہے۔

(ترجمہ راحت القلوب صفحہ 215 ملفوظات خوجہ فرید الدین گنج شکر مرتبہ نظام الدین اولیا)۔



بایزید کا اپنے جنازے کو عرش الہی سے تشبیہ دینا قابل غور ہے۔ مرنے کے بعد بولنا بھی توجہ کا متقاضی ہے۔ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ مردہ لوگ نہ سنتے ہیں نہ جواب دیتے ہیں۔ تصوف عین اسلام ہے کیا واقعی؟



شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب انفاس العارفین میں اپنے تایا ابو الرضا محمدکے بارے میں لکھتے ہیں :

رحمت اللہ کفش دوز نے بیان کیا کہ ایک موقع پر حضرت شیخ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور میں ان کے سامنے ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا کہ آپ کی خدمت میں ایک شخص نے کہا کہ حضرت بایزید بسطامی بعض اوقات کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے تو قوت جذب اور شیخ کی گرمی نگاہ سے اس کی روح پرواز کر جاتی تھی۔ آج کل ہم مشایخ کا شور سنتے ہیں مگر کسی کی قوت باطنی میں یہ تاثیر نہیں دیکھی۔ یہ سن کر حضرت شیخ نے جوش میں فرمایا کہ بایزید روحیں نکال تو لیتے تھے مگر جسم میں واپس نہیں لوٹا سکتے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دل کو اپنے قلب اطہر کے زیر سایہ ایسی تربیت اور وہ قوت عطا فرمائی ہے کہ جب چاہوں کسی کی روح کو کھینچ لوں اور جب چاہوں اسے واپس لوٹا دوں۔ عین اسی وقت شیخ نے مجھ پر نظر کر کے میری روح کھینچ لی اور میں زمین پر گر کر مر گیا اور مجھے اس عالم کا کوئی شعور نہیں رہا سوائے اس کے کہ میں نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑے دریا میں غرق پایا۔آپ نے سائل کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اسے دیکھو مردہ ہے یا زندہ ؟ اس نے سوچ کر کہا مردہ ہے۔ فرمایا اگر تو چاہے تو اسے مردہ چھوڑ دوں اور اگر پسند کرے تو اسے زندہ کر دوں! کہنے لگا اگر زندہ ہو جائے تو یہ انتہائی رحمت ہوگی۔ آپ نے مجھ پر دوبارہ توجہ ڈالی تو میں زندہ ہو کر اٹھ کھڑا ہوا۔ تمام حاضرین مجلس حضرت شیخ کی قوت حال سے متعجب ہوئے۔

(ترجمہ از فارسی انفاس العارفین صفحہ 95-96اردو ترجمہ صفحہ 206-207شائع کردہ المعارف لاہور)



زندگی اور موت پر یہ تصرف اسلام کے کس اصول کے تحت قابل تسلیم ہو سکتا ہے؟



غالباً حدیقہ ندیہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدی جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالی علیہ دجلہ پر نشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پر زمین کی مثل چلنے لگے بعد کو ایک شخص آیا۔ اسے بھی پار جانے کی ضرورت تھی کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا عرض کی میں کس طرح آوﺅں فرمایا یا جنید یا جنید کہتا چلا آ۔ اس نے یہی کیا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا۔ جب بیچ دریا میں پہنچا شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت خود تو یا اللہ کہیں اور مجھ سے یا جنید کہلواتے ہیں۔ میں بھی یا اللہ کیوں نہ کہوں اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا۔ پکارا حضرت میں چلا فرمایا وہی کہہ یا جنید یا جنید جب کہا دریا سے پار ہوا۔عرض کی حضرت یہ کیا بات تھی آپ اللہ کہیں تو پار ہوں اور میں کہوں تو غوطہ کھاوﺅں فرمایا ارے نادان ابھی تو جنید تک تو پہنچا نہیں اللہ تک رسائی کی ہوس ہے اللہ اکبر۔

(ملفوظات مجدد مائتہ حاضر اعلی حضرت احمد رضا خان بریلوی حصہ اول صفحہ 117)



اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہوں جبکہ تصوف کہتا ہے کہ جنید تک پہنچ پھر اللہ تک جانا۔ یہاں پر شیطان کی مداخلت بھی قابل غور ہے۔



یہ کچھ ہلکا پھلکا تبصرہ تھا شاید آپ کو کچھ معلومات دے سکے

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق