٠٤‏/٠٩‏/٢٠١٠

کیا متکلمین زندیق تھے ؟

علم کلام کے اوپر بہت زیادہ بحث لکھی ہوئی ہے اور سلف صالحین کے نزدیک اس علم کی وجہ سے زیادہ لوگ گمراہ ہوئے ہیں اور وہ زندیق کے درجے پے جا پہنچے میں نے یہ سوچا زرا ان اقوال کو یکجا کر کے آپ کے سامنے رکھا جائے



اب میں آپ کے سامنے دلائل رکھوں گا فیصلہ آپ پے چھوڑوں گا






سلف صالحین نے علم کلام کی مزمت کیوں کی ہے






امت کے سلف صالحین اور ائمہ عظام نے علم کلام کی سختی سے مزمت کی ہے اور انتہائی سختی سے اس میں گھسنے سے روکا ہے جس سے معلوم ہوا کہ وہ اس علم سے نفرت کرتے تھے اور اس کے حصول کی اجازت نہیں دیتے تھے اس وجہ سے کہ نہ تو یہ علم کسی تشنگی علم رکھنے والے کو سیراب کرتا ہے اور نہ جہالت سے بیمار انسان کو شفاء دیتا ہے


اب میں آپ سامنے اس کے رد میں اقوال رکھوں گا،






امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں






ابو یوسف رحمہ اللہ سے کہا ، تم اصول دین یعنی کلام کے بارے میں عام لوگوں سے گفتگو کرنے سے بچ کر رہنا کیونکہ یہ لوگ تمہاری تقلید کریں گے اور اسی میں پھنس جائیں گے ۔ مناقب ابی حنیفہ للمکی صفحہ 373






حماد بن ابی حنیفہ کہتے ہیں میرے والد نے کہا اے حماد ! علم کلام چھوڑ دو ، حماد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کھبی خلط ملط کرنے والا نہیں پایا تھا ، اور نہ ان میں سے پایا تھا جو کسی بات کا حکم دیتے ہوں ،پھر اس سے منع کرتے ہوں ، اس لئے میں نے ان سے کہا ابا جان ! کیا آپ مجھے اس کا حکم نہیں دیتے تھے امام صاحب نے کہا ہاں بیٹے ! کیوں نہیں لیکن آج تم کو اس سے منع کرتا ہوں میں نے کہا ، کیوں ؟ انہوں نے کہا ، اے بیٹے یہ لوگ جو علم کلام کے ابواب میں اختلاف کئے بیٹھے ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو یہ اک ہی قول اور دین پے تھے ،یہاں تک کہ شیطان نے ان کے درمیان کچوکا مارا ، اور ان میں عداوت و اختلاف ڈال دیا ،اور وہ اک دوسرے سے الگ ہو گئے ،


مناقب ابی حنیفہ للمکی صفحہ 183 تا 184






امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں ۔ اللہ عمرو بن عبید پر لعنت کرے ،کیونکہ علم کلام میں جو چیزیں مفید نہیں اس کی بابت گفتگو کا دروازہ اسی شخص نے کھولا ہے ،


زم الکلام للہری صفحہ 28






امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ میں علم کلام پے نظر رکھتا تھا یہاں تک کہ اس درجے کو پہنچ گیا کہ اس فن میں میری انگلیوں سے اشار ے کئے جانے لگے کہتے ہیں ہم حماد بن ابی سلیمان کے حلقے میں بیٹھا کرتے تھے ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی اور کہا اک آدمی ہے اسکی ایک بیوی ہے جو لونڈی ہے اور وہ اسے سنت کے مطابق طلاق دینا چاہتا ہے کتنی طلاق دے ،مجھے سمجھ نہ آیا کہ میں کیا کہوں ، میں نے اس عورت کو کہا کہ حماد سے پوچھو ، اور مجھے بتانا حماد نے کیا جواب دیا ، وہ حماد کے پاس گئی اور پوچھا ،حماد نے کہا اسے حیض اور جماع سے پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے پھر اسے چھوڑ رکھے یہاں تک کہ اسے دو حیض آ جائیں ، پھر جب وہ غسل کر لے تو نکاح کرنے والے کے لئے حلال ہوگئی ۔ اس نے واپس آکر مجھے بتایا ،میں نے کہا مجھے علم کلام کی کوئی ضرورت نہیں ، میں نے اپنا جوتا لیا اور حماد کے پاس آ بیٹھا ۔


تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 333






امام شافعی رحمہ اللہ


امام صاحب فرماتے ہیں شرک کے علاوہ اللہ کےحرام کردہ کسی بھی کام کا ارتکاب علم کلام میں غور کرنے سے بہتر ہے فرماتے ہیں کہ علمائے کلام کے بارے میں میرا فتوی یہ ہے کہ انہیں چھڑی سے مارا جائے پھر انہیں لوگوں میں گھمایا پھرایا جائے اس اعلان کے ساتھ کہ یہ سزا ہے ان لوگوں کی جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر علم کلام کو اپنائے ہوئے ہیں


تلبیس ابلیس ابن جوزی صفحہ 82






امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ






امام صا حب فرماتے ہیں ، علم کلام کا حامل شخص کھبی بھی صحیح راستے پر نہیں آ سکتا علمائے کلام زندیق ہیں






المصدر السابق صفحہ 83






امام اوزاعی رحمہ اللہ






امام صاحب فرماتے ہیں جب اللہ تعالی کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارداہ کرتا ہے تو ان کو جدال ومباحثوں میں مبتلا کر دیتا ہے اور عمل سے روک دیتا ہے


شرح اصول اعتقاد اھل السنہ الکائی جلد 1 صفحہ 145






امام ابو یوسف رحمہ اللہ






امام صاحب فرماتے ہیں جس نے کمیاء کے زریعے مال کمانے کی کوشش کی وہ مفلس ہو گیا ،جس نے علم کلام کے زریعے دین حاصل کرنے کی کوشش کی وہ زندیق بن گیا






المصدر السابق جلد 1 صفحہ 147 صون المنطوق والکلام للسیوطی






اسی طرح کے اقوال ابن مدینی ،ابی حاتم الرازی ، ابو زرعہ ، اسحاق بن ابراہیم ، قاسم بن سلام ، لیث بن سعد ،امام مالک ، سفیان ثوری رحمہم اللہ وغیرہ سے بھی منقول ہیں یہ سب امت کے جلیل القدر ائمہ اور علماء متکلمین کی کتابیں پڑھنے سے منع کرتے تھے ان کی محافل و مجالس میں شرکت سے اور متکلمین سے میل جول رکھنے سے روکتے تھے






شرح اصول اعتقاد اھل السنہ جلد 1 صفحہ 151






بہت سے متکلمین جنہوں نے حق کی طرف رجوع کیا






ابن الصلاح کہتے ہیں کہ مجھے قطب طوغائی نے دو مرتبہ بتایا کہ اس نے فخر الدین رازی کو کہتے سنا تھا کہ کاش میں علم کلام میں مشغول نہ ہوا ہوتا یہ کہہ کر فخر الدین رازی رونے لگ جاتے


مقدمہ اعتقادات فرق المسلمین والمشرکین للرازی صفحہ 23


ولید بن ابان الکرابیسی بہت بڑا عالم تھا جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اپنے بیٹوں سے کہا کہ کیا مجھ سے بڑا کوئی علم کلام کا عالم ہے انہوں نے کہا نہیں تو اس نے کہا کیا تم مجھے الزام دو گے برا سمجھو گے انہوں نے کہا نہیں تو اس نے کہا میں تمہیں وصیت کرتا ہوں تم اسے مانو گے انہوں نے کہا ضرور مانیں گے اس نے کہا ،تم محدثین کے راستے کو اپنائے رکھو کیونکہ میں نے حق ان ہی کے پاس دیکھا ہے


تلبیس ابلیس ،ابن جوزی صفحہ 84






ابو معالی الجوینی کہتے ہیں اے ابن جوینی تجھ پے افسوس کہ زندگی کا بیشتر حصہ گنوا دیا اور اپنے ساتھیوں سے کہتا تھا میرے ساتھیوں علم کلام میں مشغول مت ہونا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ علم مجھے وہاں پہنچائے گا جہاں پہنچا چکا ہے تو میں‌کھبی اس میں مشغول نہ ہوتا ۔


تلبیس ابلیس ،ابن جوزی صفحہ 58






ابو حامد الغزالی کو بھی علم کلام میں کوئی فائدہ نظر نہ آیا تو انہوں نے بھی آخری عمر میں رجوع کیا اور سمجھ لیا کہ علم کلام میں کوئی فائدہ نہیں ،پھر حفظ قرآن ،صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی طرف توجہ کی، کہا جاتا ہے جب ان کی وفات ہوئی اس وقت صحیح بخاری ان ک سینے پے رکھی ھوئی تھی مگر قرآن و حدیث کے اثرات ان کی کتابوں میں اس لیے نظر نہیں آئے کہ جب انہوں نے قرآن و حدیث کی طرف رجوع کیا تو زندگی نے انہیں اتنی مہلت نہ دی کہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں‌کچھ لکھ لیتے۔


التفرقہ بین الایمان والزندقہ ،صفحہ 79 تا 83






امام ابو حسن الاشعری رحمہ اللہ نے بھی معتزلہ کے عقائد سے رجوع کرلیا تھا اور اس بات کا اقرار کر لیا تھا کہ میں مزہب اھل سنت کی طرف اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرف خود کو منسوب کرتا ہوں اس وقت اھل سنت کے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تھے


امام ابو حسن الاشعری نے اپنی آخری کتاب اس عقیدے کی حقیقت واضح کرنے کیلئے لکھی جس کا نام ، الابانہ عن اصول الدیانہ ، اور امام ابن قیم نے اپنی کتاب اللو لو والمرجان کے مقرمے میں یہ بات زکر کی ہے


اس مزہب کے بانی اس بات کو نہیں مانتے اور نہ ہی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں اور آج ان کے گمراہ عقیدہ کو پکڑے ہوئے ہیں اور الابانہ عن اصول الدیانہ میں جو امام ابو حسن الاشعری نے سلف صالحین کا قرآن و سنت والا عقیدہ بیان کیا اس کو نہیں لیتے ۔


ان سطور میں جتنے ائمہ کا زکر کیا ہے یہ سب اشاعرہ کے متکلمین کے بہت بڑے نامی گرامی امام ہیں ان سب نے علم کلام کے نہج سے توبہ کی اور اہل سنت کے مزہب کی طرف رجوع کیا ۔اگر علم کلام کا مزہب حق ہوتا تو یہ کھبی اسے نہ چھوڑتے اور اس کے نقائص و عیوب بیان نہ کرتے اور اپنی آخری عمر میں اس سے براءت کا اعلان نہ کرتے افسوس ان بدعتیوں پر خود کو ان ائمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ان کی تقلید کا دعوی کرتے ہیں مگر ان کی آخری عمر کی حالت سے عبرت نہیں پکڑتے ۔ جہاں تک معتزلہ متکلمین کا تعلق ہے تو ان میں سے کسی کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا کہ اس نے توبہ کی ہو اور رجوع کیا ہو اس کی وجہ مزہب کی حقانیت نہیں بلکہ غلو ہے اور ان میں صحیح مزہب کی جستجو بھی نہیں تھی وہ بدعت کے سرغنہ تھے بدعتیں ایجاد کرنے میں ہی مگن رہتے تھے

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق