احباب ديوبندى جو اپنے آپ کو حنفى ديوبندى کہلواتے ہيں جب کہ اصل ميں يہ لوگ گمراہ کن مرجيئہ فرقے سےتعلق رکھتے ہيں ٫ جيساکہ خود عبد القادر جيلانى نے ان کا شمار گمراہ کن فرقوں ميں کيا ہے اور انہيں حہنمى کہا ہے۔ (غنيۃالطالبين)
ديوبندى اللہ رب العزت کے صفات ميں تعويليں کرتے ہيں اور تعويل کرکے صفات بارى کا انکار کرتے ہيں٫اور اسى طرح ايمان کے گھٹنے اور بڑھنے کا بھى انکار کرتے ہيں۔۔
اختصار کہ ساتھ تھوڑى سى وضاحت کرديتا ہوں
مرجيہ
مرجيہ فرقہ خوارج فرقے کي ضد ميں نکلا تھا ٫ ان لوکوں کا قول يہ ہے کہ مومن کو گنا سے مطلقا کوئى ضر نہيں پہنچے گا ٫ جس طرح کافر کو اطاعت سے کوئى فائدہ نہيں پہنچ سکتا٫ کيونکہ خوارج کا يہ قول تھا
انسان بڑے گنہاہ کا ارتکاب کرکے اسلام سے خارج ہوجاتا ہے٫تو خوارج کے مقبلہ مبں پھريہ مرجيئہ منظر عام پھر آئےاس عقيدے کو سب سے پہلے عراق کے شہر بصرہ ميں حسان بن بلال مزنى نے اختيار کيا تھا کچھ مورخين اس فرقے کے بانى کانام ابوسلمت سمان بتاتے ہيں جو ۱۵۲ھ ميں فوت ہوا ( اسلا م ميں بدعت اور ضلالت کہ محرکات صفہ ۸۳ ۔ نوٹ ۔ امام ابو حنيفہ کا بھى يہى قول تھا اور امام ابو حنيفہ کى موت ۱۵۰ ھ ميں ہوئى تھى ۔۔۔
يہى قول ديوبنديوں کا بھي ہے کہ عمل ايمان ميں شامل نہيں صرف اقرا بلسان کافى ہے ٫ ديوبنديوں کى کتاب (تعليم اسلام ) تقريظ ٫٫٫ مفتى نظام الدين شامزى ٫٫ مولانا انور بدخشانى ۔
ترتيب٫٫ ٫ مولوى محمد عمران عثمان ورفقاء ۔
تأليف٫٫٫ مولانا مفتى محمد کفايت اللہ ۔
مدرسہ ابراہيم الاسلاميہ ٫ ملک سوسائٹى گلزار چوک کراچى پاکستان۔
اس کتاب کہ صفہ نمبر ۳ ميں ايک سوال ايمان مجمل کيا ہے ؟ جواب ميں , ايمان لايا ميں اللہ پر جيسا کہ وہ اپنے ناموں اور صفتوں کے ساتھ ہے ٫ اورميں نے اس کے تمام احکام قبول کئے۔
ديوبند و احناف عمل کو ايمان ميں شامل نہيں کرتے ۔
يعني يہ کہدينا ہى کافى کہ ميں اللہ پر ايمان لايا٫ وہ مکمل مومن ہے٫ اس کے بعد اگر کوئى انسان چاہے کتنے بڑے سے بڑا گناہ کا ارتکاب کرے وہ مومن ہي رہے گأ ۔ اس گناہ سے ايمان ميں کوئى نصان نہ ہوگأ۔۔۔
انکے نذيک عمل شرط نہيں ايمان ميں حالانکہ انکے کہ اس قول سے يہ معنى نکلتے ہيں٫ انبياء ٫ رسل ٫ ولى اور ايک عام مسلمان کا ايمان يکساں ہے بس شرط اقرار بالسان ہے۔ و عمل بالجورح
حالانکہ قرآن و حديث ميں کئى مقام پر موجود ہے کہ ايمان يکسا نہيں ہے۔
سوره انفال ميں اللہ سبحان وتعالى فرتا ہے (إنما المؤمنون الذين إذا ذكر الله وجلت قلوبهم وإذا تليت عليهم آياته زادتهم إيمانا وعلى ربهم يتوكلون)۔
سورة الفتح (هو الذي أنزل السكينة في قلوب المؤمنين ليزدادوا إيمانا مع إيمانهم )
حديث ۱
اسمعیل، مالک، عمرو بن یحیی، مازنی، یحیی مازنی، ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (جب) جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالی (فرشتوں) سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو (دوزخ سے) نکال لو، پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر) سیاہ ہوچکے ہونگے، پھر وہ نہر حیا، یا نہر حیات میں ڈال دئیے جائیں گے، تب وہ تروتازہ ہوجائیں گے، جس طرح دانہ (تروتازگی) کے ساتھ پانی کے ساتھ اگتا ہے، (اے شخص) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ دانہ کیسا سبز کونپل زردی مائل نکلتا ہے؟ اس حدیث کے ایک راوی عمر نے اپنی روایت میں لفظ حیا کی جگہ حیات کا لفظ اور من ایمان کی بجائے من خیر روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری ۔ ایمان کا بیان ۔ اہل ایمان کا اعمال میں ایک دوسرے سے زیادہ ہونے کا بیان ۔ حديث ۲۱۔
حديث ۲
ابو الیمان، شعیب، زہری، عامربن سعد بن ابی وقاص، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کو (مال) دیا اور سعد بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا (نہیں دیا) جو مجھے سب سے اچھا معلوم ہوتا تھا، تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص سے اعراض کیا، اللہ کی قسم میں اسے مومن سمجھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (مومن سمجھتے ہو؟) تو میں نے تھوڑی دیر سکوت کیا، پھر جو کچھ مجھے اس شخص کے بارے میں معلوم تھا اس نے مجبور کردیا اور میں نے پھر وہی بات کی، یعنی یہ کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص سے اعراض کیا، اللہ کی قسم! میں اسے مومن جانتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (مومن جانتے ہو) یا مسلم؟ پھر میں کچھ دیر چپ رہا، اس کے بعد جو کچھ میں اس شخص کے بارے میں جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کر دیا اور میں نے پھر اپنی بات کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر وہی فرمایا، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! میں ایک شخص کو اس خوف سے کہ کہیں (ایسا نہ ہو کہ اگر اس کو نہ دیا جائے تو وہ کافر ہو جائے اور) اللہ تعالی اس کو آگ میں سرنگوں نہ ڈال دے، دے دیتا ہوں (حالانکہ دوسرا شخص مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، اس کو نہیں دیتا کیونکہ اس کی نسبت ایسا خیال نہیں ہوتا)
صحیح بخاری ’ ایمان کا بیان ’ باب اگرصدق دل سے اسلام نہ لایا۔ حديث 26
سلف کے اقوال لا إيمان بدون عمل۔ http://www.saaid.net/Doat/abu_sarah/68.htm
کچھ جہميہ کے بارے ميں اختصار کے ساتھ ۔
جہميہ
ہشام بن عبد المک کے عہد ميں ايک شخص جعد بن درہم جس نے اللہ کى صفات کا اانکار کيا تھا کوفہ ميں جعد کا ايک شاگرد تھا ٫ جہم بن صفوان جو اگرچہ کوئي عالم نہيں تھا ٫ مگر بڑا چرب زبان اور فصيح اللسان تھا اس نے جعد بن درہم کے خيالات کي اشاعت نہايت زور و شور سے کي ٫ بہت سے لوگ اسکے ہم خيال ہوگئے تھے ٫ اس فرقے کا نام جہم کے نام سے منسوب ہوکر ( جہميہ ) ہوا ۔
جعد بن درہم کو خالد بن عبدااللہ القسري جو عراق کا حاکم تھا اس وقت عين بقرا عيد کے دن شہر واسط ميں يہ کہتے ہوئے جعد کو قتل کيا ۔ ( ايھا الناس اضحوا تقبل اللہ ضحاياکم انى مصنع بالجعد بن درہم انہ زعم ان اللہ لم يتخد ابراہيم خليلا و لم يکلم موسى تلکيما) ترجمہ ۔ لوگوں ! قربانياں کرو اللہ تعالى تمہاري قربانيوں کو قبول فرمائے ٫ مين جعد بن درہم کو ذبح کررہاہوں ٫ اس کا باطل گمان ہے کہ اللہ نے ابراہيم عليہ السلام کو دوست نہيں بنايا ٫ اور نہ ہي حضرت موسى عليہ السلام سے کلام کيا ٫٫
جعد بن درہم کو قتل کردينے پر حضرت حسن بصري اور ديگر علماء سلف نے خالد کا شکريہ ادا کيا تھا ٫
اور جہم بن صفوان کو بني اميہ کے آخري خليفہ مروان الحمار کے عہد حکومت ميں نصر بن يسار حاکم خراسان کے حکم پر قتل کرديا گيا تھا ۔ التحفة العراقية ص:68 العقيدة الأصفهانية ص:23 درء التعارض 5/244 الصواعق المرسلة 3/1071
نوٹ ۔۔۔ بعض اہل علم کہتے ہيں اس روايت ميں ضعف ہے روايت معلق ہے ۔
جعد بن درہم اللہ کے باقى صفات کا بھي انکار کيا کرتا تھا ۔ جيسے ديوبند کہ اکابرين اور انکے مقلدين کرتے ہيں ۔
اللہ کہ صفات اوراستواء کي تعويل کرکے صفات اور اللہ کي جہت کا انکار کرتے ہيں ۔۔۔
علماء ديوبند کى معروف کتاب المہند على المفند جو کہ 60 علماء ديوبند سے مصدقا شدہ ہے کہ اس ميں جو عقائد درج ہيں وہ عقائد ہمارے اور ہمارے اکابرين کہ ہيں ۔
اس کتاب کے صفہ نمبر ۴۷ ميں سوال نمبر ۱۳ – ۱۴ کے جواب ميں انہونے اللہ کہ آسمانوں پر مستوى ہونے سے انکار کيا اور تعويليں کي اور اللہ تعالى کے آسمانوں پر مستوى ہونے پر انکار کيا ۔
دليل کہ لئے Al Muhannad Al Al Mufannad Yani Aqaid Ulama E Ahle Sunnat Deoband
آئيے اب احناف کا اور امام ابو حنيفہ کا عقيدہ ديکھتے ہيں کہ ان کا کيا عقيدہ تھا استواء على العرش پر احناف کى معتبر کتاب فقہ اکبر کي شرح منح الروض الازھر فى شرح فقہ اکبر مصنف على بن سلطان محمد القارى صفہ نمبر ۳۳۳ ميں لکھتے ہيں کہ بلخى نے امام ابو حنيفہ سے پوچھا اگر کوءي يہ کہيں کہ مجھے نہيں پتہ کہ اللہ آسمانوں ميں ہے يا زميں پر ٫ امام ابوحنيفہ نے کہا اسنے کفر کہا کيونکہ اللہ تعالى قرآن ميں سورہ طہ آيت نمبر ۴ ميں فرماتا ہے ( الرحمن على العرش استوى ) اوراللہ کا عرش ۷ آسمانوں کے اوپر ہے ۔ بلخى نے کہا اگر وہ يہ کہے کہ اللہ عرش پر تو ہے مگر ميں يہ نہيں جانتا کہ عرش آسمانوں کے اوپر ہے يا زمين پر امام ابو حنيفہ نے کہا وہ کافر ہے ٫کيونکہ اس نے آسمانوں کا انکار کيا اور جس نے عرش کے آسمانوں پر انکار کيا سوائے کفر کہ کچھ نہ کيا۔
يہى عقيدہ انکى دوسرى کتاب عقيدہ طحاويہ ميں مذکور ہے کہ جس نے آسمان کا انکار کيا وہ کافر ہے ۔۔۔
ألسلام ميں بنيادى چيز عقيدہ ہے نہ کہ فروعى مسائل ٫ اب اگر کوئي مرزئي روزہ ٫ نماز ٫ زکاۃ ٫ يا حج سنت کے مطابق ادا کريں تو کيا انکى يہ اعمال اللہ کے يہاں قابل قبول ہونگے ؟ يا کوئي شيعہ عقيدۃ تو اسکا وہي شيعوں والا ہوں ہومگرباقى معملات سنت کے مطابق ادا کريں تو کيا اسکے يہ اعمال قبول ہونگے؟
نہيں ہونگے کيونکہ اس کے عقائد ہى کفريہ ہيں ٫ ٹھيک اسي طرح سے ديوبندى مسائل تو امام ابو حنيفہ سے ليتے ہيں مگرعقائد نہيں۔ عقائد ميں يہ ماتدرى ٫ سہروردى اور نہ جانے کيا چوچو کا مربع ہے۔۔
اس سوال کےجواب ميں اگثر ديوبندى يہ جواب ديتے ہيں کہ ہر فن کا ايک امام ہوتا ہے ۔
اب سوال يہاں يہ پيدا ہوتا ہے کہ عجيب سي بات ہے امام صاحب نے اہم ترين چيز کو چھوڑ کر اس چپز کي طرف تھک دوڑکي جوعقائد کہ بعد آتے ہيں۔ تو کيا امام صاحب نے عقائد کو چھوڑ کر مسائل کو ترجيح دي؟
يہاں ديوبند سے ايک سوال ہے اگر ان کے پاس کوئى شيعہ يا مرزئي يا ہندوں يا کوئى بھي کافر آجائے تو اس کو يہ سب سے پہلے کس چيزکي دعوت دے گے فرعى مسائل کى يا عقيدہ توحيد کى؟
يقينا ديوبند کا جواب ہوگا سب سے پہلے عقيدے کى دعوت دي جائے گى پھر مسائل کى طرف۔
اب مٍسئلہ يہاں يہ پيدا ہوتا ہے جو عقيدے کو نا سمھج سکے وہ معملات کو کيسے سمھجے گا ؟
امام صاحب نے عقيدے جيسى بنيادى اور اساسى چيز کو چھوڑ کر ان مسائل کو ترجيح دى ٫جن کا ان پر کوئى وبال نہ تھا نہ ہى اللہ ان سے باز پرست کرتے ٫ آخر وہ لوگ بھى تو جنت ميں جائے گے يا گئے جو نہ تو عالم تھے نہ امام۔
يا پھر کہى يہ وہي شيعيوں والا عقيدۃ تو نہيں کہ امام من جانب اللہ ہوتا ہے ؟
ديوبندى اللہ رب العزت کے صفات ميں تعويليں کرتے ہيں اور تعويل کرکے صفات بارى کا انکار کرتے ہيں٫اور اسى طرح ايمان کے گھٹنے اور بڑھنے کا بھى انکار کرتے ہيں۔۔
اختصار کہ ساتھ تھوڑى سى وضاحت کرديتا ہوں
مرجيہ
مرجيہ فرقہ خوارج فرقے کي ضد ميں نکلا تھا ٫ ان لوکوں کا قول يہ ہے کہ مومن کو گنا سے مطلقا کوئى ضر نہيں پہنچے گا ٫ جس طرح کافر کو اطاعت سے کوئى فائدہ نہيں پہنچ سکتا٫ کيونکہ خوارج کا يہ قول تھا
انسان بڑے گنہاہ کا ارتکاب کرکے اسلام سے خارج ہوجاتا ہے٫تو خوارج کے مقبلہ مبں پھريہ مرجيئہ منظر عام پھر آئےاس عقيدے کو سب سے پہلے عراق کے شہر بصرہ ميں حسان بن بلال مزنى نے اختيار کيا تھا کچھ مورخين اس فرقے کے بانى کانام ابوسلمت سمان بتاتے ہيں جو ۱۵۲ھ ميں فوت ہوا ( اسلا م ميں بدعت اور ضلالت کہ محرکات صفہ ۸۳ ۔ نوٹ ۔ امام ابو حنيفہ کا بھى يہى قول تھا اور امام ابو حنيفہ کى موت ۱۵۰ ھ ميں ہوئى تھى ۔۔۔
يہى قول ديوبنديوں کا بھي ہے کہ عمل ايمان ميں شامل نہيں صرف اقرا بلسان کافى ہے ٫ ديوبنديوں کى کتاب (تعليم اسلام ) تقريظ ٫٫٫ مفتى نظام الدين شامزى ٫٫ مولانا انور بدخشانى ۔
ترتيب٫٫ ٫ مولوى محمد عمران عثمان ورفقاء ۔
تأليف٫٫٫ مولانا مفتى محمد کفايت اللہ ۔
مدرسہ ابراہيم الاسلاميہ ٫ ملک سوسائٹى گلزار چوک کراچى پاکستان۔
اس کتاب کہ صفہ نمبر ۳ ميں ايک سوال ايمان مجمل کيا ہے ؟ جواب ميں , ايمان لايا ميں اللہ پر جيسا کہ وہ اپنے ناموں اور صفتوں کے ساتھ ہے ٫ اورميں نے اس کے تمام احکام قبول کئے۔
ديوبند و احناف عمل کو ايمان ميں شامل نہيں کرتے ۔
يعني يہ کہدينا ہى کافى کہ ميں اللہ پر ايمان لايا٫ وہ مکمل مومن ہے٫ اس کے بعد اگر کوئى انسان چاہے کتنے بڑے سے بڑا گناہ کا ارتکاب کرے وہ مومن ہي رہے گأ ۔ اس گناہ سے ايمان ميں کوئى نصان نہ ہوگأ۔۔۔
انکے نذيک عمل شرط نہيں ايمان ميں حالانکہ انکے کہ اس قول سے يہ معنى نکلتے ہيں٫ انبياء ٫ رسل ٫ ولى اور ايک عام مسلمان کا ايمان يکساں ہے بس شرط اقرار بالسان ہے۔ و عمل بالجورح
حالانکہ قرآن و حديث ميں کئى مقام پر موجود ہے کہ ايمان يکسا نہيں ہے۔
سوره انفال ميں اللہ سبحان وتعالى فرتا ہے (إنما المؤمنون الذين إذا ذكر الله وجلت قلوبهم وإذا تليت عليهم آياته زادتهم إيمانا وعلى ربهم يتوكلون)۔
سورة الفتح (هو الذي أنزل السكينة في قلوب المؤمنين ليزدادوا إيمانا مع إيمانهم )
حديث ۱
اسمعیل، مالک، عمرو بن یحیی، مازنی، یحیی مازنی، ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (جب) جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالی (فرشتوں) سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو (دوزخ سے) نکال لو، پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر) سیاہ ہوچکے ہونگے، پھر وہ نہر حیا، یا نہر حیات میں ڈال دئیے جائیں گے، تب وہ تروتازہ ہوجائیں گے، جس طرح دانہ (تروتازگی) کے ساتھ پانی کے ساتھ اگتا ہے، (اے شخص) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ دانہ کیسا سبز کونپل زردی مائل نکلتا ہے؟ اس حدیث کے ایک راوی عمر نے اپنی روایت میں لفظ حیا کی جگہ حیات کا لفظ اور من ایمان کی بجائے من خیر روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری ۔ ایمان کا بیان ۔ اہل ایمان کا اعمال میں ایک دوسرے سے زیادہ ہونے کا بیان ۔ حديث ۲۱۔
حديث ۲
ابو الیمان، شعیب، زہری، عامربن سعد بن ابی وقاص، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کو (مال) دیا اور سعد بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا (نہیں دیا) جو مجھے سب سے اچھا معلوم ہوتا تھا، تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص سے اعراض کیا، اللہ کی قسم میں اسے مومن سمجھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (مومن سمجھتے ہو؟) تو میں نے تھوڑی دیر سکوت کیا، پھر جو کچھ مجھے اس شخص کے بارے میں معلوم تھا اس نے مجبور کردیا اور میں نے پھر وہی بات کی، یعنی یہ کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص سے اعراض کیا، اللہ کی قسم! میں اسے مومن جانتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (مومن جانتے ہو) یا مسلم؟ پھر میں کچھ دیر چپ رہا، اس کے بعد جو کچھ میں اس شخص کے بارے میں جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کر دیا اور میں نے پھر اپنی بات کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر وہی فرمایا، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! میں ایک شخص کو اس خوف سے کہ کہیں (ایسا نہ ہو کہ اگر اس کو نہ دیا جائے تو وہ کافر ہو جائے اور) اللہ تعالی اس کو آگ میں سرنگوں نہ ڈال دے، دے دیتا ہوں (حالانکہ دوسرا شخص مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، اس کو نہیں دیتا کیونکہ اس کی نسبت ایسا خیال نہیں ہوتا)
صحیح بخاری ’ ایمان کا بیان ’ باب اگرصدق دل سے اسلام نہ لایا۔ حديث 26
سلف کے اقوال لا إيمان بدون عمل۔ http://www.saaid.net/Doat/abu_sarah/68.htm
کچھ جہميہ کے بارے ميں اختصار کے ساتھ ۔
جہميہ
ہشام بن عبد المک کے عہد ميں ايک شخص جعد بن درہم جس نے اللہ کى صفات کا اانکار کيا تھا کوفہ ميں جعد کا ايک شاگرد تھا ٫ جہم بن صفوان جو اگرچہ کوئي عالم نہيں تھا ٫ مگر بڑا چرب زبان اور فصيح اللسان تھا اس نے جعد بن درہم کے خيالات کي اشاعت نہايت زور و شور سے کي ٫ بہت سے لوگ اسکے ہم خيال ہوگئے تھے ٫ اس فرقے کا نام جہم کے نام سے منسوب ہوکر ( جہميہ ) ہوا ۔
جعد بن درہم کو خالد بن عبدااللہ القسري جو عراق کا حاکم تھا اس وقت عين بقرا عيد کے دن شہر واسط ميں يہ کہتے ہوئے جعد کو قتل کيا ۔ ( ايھا الناس اضحوا تقبل اللہ ضحاياکم انى مصنع بالجعد بن درہم انہ زعم ان اللہ لم يتخد ابراہيم خليلا و لم يکلم موسى تلکيما) ترجمہ ۔ لوگوں ! قربانياں کرو اللہ تعالى تمہاري قربانيوں کو قبول فرمائے ٫ مين جعد بن درہم کو ذبح کررہاہوں ٫ اس کا باطل گمان ہے کہ اللہ نے ابراہيم عليہ السلام کو دوست نہيں بنايا ٫ اور نہ ہي حضرت موسى عليہ السلام سے کلام کيا ٫٫
جعد بن درہم کو قتل کردينے پر حضرت حسن بصري اور ديگر علماء سلف نے خالد کا شکريہ ادا کيا تھا ٫
اور جہم بن صفوان کو بني اميہ کے آخري خليفہ مروان الحمار کے عہد حکومت ميں نصر بن يسار حاکم خراسان کے حکم پر قتل کرديا گيا تھا ۔ التحفة العراقية ص:68 العقيدة الأصفهانية ص:23 درء التعارض 5/244 الصواعق المرسلة 3/1071
نوٹ ۔۔۔ بعض اہل علم کہتے ہيں اس روايت ميں ضعف ہے روايت معلق ہے ۔
جعد بن درہم اللہ کے باقى صفات کا بھي انکار کيا کرتا تھا ۔ جيسے ديوبند کہ اکابرين اور انکے مقلدين کرتے ہيں ۔
اللہ کہ صفات اوراستواء کي تعويل کرکے صفات اور اللہ کي جہت کا انکار کرتے ہيں ۔۔۔
علماء ديوبند کى معروف کتاب المہند على المفند جو کہ 60 علماء ديوبند سے مصدقا شدہ ہے کہ اس ميں جو عقائد درج ہيں وہ عقائد ہمارے اور ہمارے اکابرين کہ ہيں ۔
اس کتاب کے صفہ نمبر ۴۷ ميں سوال نمبر ۱۳ – ۱۴ کے جواب ميں انہونے اللہ کہ آسمانوں پر مستوى ہونے سے انکار کيا اور تعويليں کي اور اللہ تعالى کے آسمانوں پر مستوى ہونے پر انکار کيا ۔
دليل کہ لئے Al Muhannad Al Al Mufannad Yani Aqaid Ulama E Ahle Sunnat Deoband
آئيے اب احناف کا اور امام ابو حنيفہ کا عقيدہ ديکھتے ہيں کہ ان کا کيا عقيدہ تھا استواء على العرش پر احناف کى معتبر کتاب فقہ اکبر کي شرح منح الروض الازھر فى شرح فقہ اکبر مصنف على بن سلطان محمد القارى صفہ نمبر ۳۳۳ ميں لکھتے ہيں کہ بلخى نے امام ابو حنيفہ سے پوچھا اگر کوءي يہ کہيں کہ مجھے نہيں پتہ کہ اللہ آسمانوں ميں ہے يا زميں پر ٫ امام ابوحنيفہ نے کہا اسنے کفر کہا کيونکہ اللہ تعالى قرآن ميں سورہ طہ آيت نمبر ۴ ميں فرماتا ہے ( الرحمن على العرش استوى ) اوراللہ کا عرش ۷ آسمانوں کے اوپر ہے ۔ بلخى نے کہا اگر وہ يہ کہے کہ اللہ عرش پر تو ہے مگر ميں يہ نہيں جانتا کہ عرش آسمانوں کے اوپر ہے يا زمين پر امام ابو حنيفہ نے کہا وہ کافر ہے ٫کيونکہ اس نے آسمانوں کا انکار کيا اور جس نے عرش کے آسمانوں پر انکار کيا سوائے کفر کہ کچھ نہ کيا۔
يہى عقيدہ انکى دوسرى کتاب عقيدہ طحاويہ ميں مذکور ہے کہ جس نے آسمان کا انکار کيا وہ کافر ہے ۔۔۔
ألسلام ميں بنيادى چيز عقيدہ ہے نہ کہ فروعى مسائل ٫ اب اگر کوئي مرزئي روزہ ٫ نماز ٫ زکاۃ ٫ يا حج سنت کے مطابق ادا کريں تو کيا انکى يہ اعمال اللہ کے يہاں قابل قبول ہونگے ؟ يا کوئي شيعہ عقيدۃ تو اسکا وہي شيعوں والا ہوں ہومگرباقى معملات سنت کے مطابق ادا کريں تو کيا اسکے يہ اعمال قبول ہونگے؟
نہيں ہونگے کيونکہ اس کے عقائد ہى کفريہ ہيں ٫ ٹھيک اسي طرح سے ديوبندى مسائل تو امام ابو حنيفہ سے ليتے ہيں مگرعقائد نہيں۔ عقائد ميں يہ ماتدرى ٫ سہروردى اور نہ جانے کيا چوچو کا مربع ہے۔۔
اس سوال کےجواب ميں اگثر ديوبندى يہ جواب ديتے ہيں کہ ہر فن کا ايک امام ہوتا ہے ۔
اب سوال يہاں يہ پيدا ہوتا ہے کہ عجيب سي بات ہے امام صاحب نے اہم ترين چيز کو چھوڑ کر اس چپز کي طرف تھک دوڑکي جوعقائد کہ بعد آتے ہيں۔ تو کيا امام صاحب نے عقائد کو چھوڑ کر مسائل کو ترجيح دي؟
يہاں ديوبند سے ايک سوال ہے اگر ان کے پاس کوئى شيعہ يا مرزئي يا ہندوں يا کوئى بھي کافر آجائے تو اس کو يہ سب سے پہلے کس چيزکي دعوت دے گے فرعى مسائل کى يا عقيدہ توحيد کى؟
يقينا ديوبند کا جواب ہوگا سب سے پہلے عقيدے کى دعوت دي جائے گى پھر مسائل کى طرف۔
اب مٍسئلہ يہاں يہ پيدا ہوتا ہے جو عقيدے کو نا سمھج سکے وہ معملات کو کيسے سمھجے گا ؟
امام صاحب نے عقيدے جيسى بنيادى اور اساسى چيز کو چھوڑ کر ان مسائل کو ترجيح دى ٫جن کا ان پر کوئى وبال نہ تھا نہ ہى اللہ ان سے باز پرست کرتے ٫ آخر وہ لوگ بھى تو جنت ميں جائے گے يا گئے جو نہ تو عالم تھے نہ امام۔
يا پھر کہى يہ وہي شيعيوں والا عقيدۃ تو نہيں کہ امام من جانب اللہ ہوتا ہے ؟
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق