٠٤‏/٠٩‏/٢٠١٠

توسل کے عقیدہ میں کون صحیح دیوبند یا امام ابو حنیفہ

http://www.jamiabinoria.net/efatawa/Aqaid/3887.htm


یہ فتوی جامعہ بنوریہ کراچی والوں کا ہے


اس فتوی میں کہا گیا ہے کہ اھل سنت کے نزدیک نبی اور ولی اور شہداء کے طفیل دعا مانگنا جائز ہے دیوبند کے عقائد کی مشھور کتاب المھند علی المفند کے صفحہ نمبر 31 اور سوال نمبر تیسرا اور چوتھا ، اس میں بھی یہ موجود ہے کہ وفات کے بعد انبیاء صلحاء اور اولیاء اور شہداء کا توصل جائز ہے-






اب زرا دیکھتے ہیں کہ کیا یہ عقیدہ امام ابو حنیفہ کا بھی ہے جن کی طرف احناف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں


امام صاحب نے کہا ، کسی کیلئے درست نہیں کہ وہ اللہ سے دعا کرے مگر اسی کے واسطے سے ،اور جس دعا کی اجازت ہے اور جس دعا کا حکم ہے وہ وہی ہے جو اللہ تعالی کے اس قول سے مستفاد ہے ٭ سورة الاٴعرَاف آیت 180 ٭ اور اللہ کے سب نام اچھے ہی ہیں۔ تو اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو اور جو لوگ اس کے ناموں میں الحاد اختیار کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اس کی سزا پائیں گے ،


الدر المختار مع حاشیہ رد المختار 6/ 396 ، 397






عقیدہ شرح الطحاویہ میں امام ابو حنیفہ کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے صفحہ نمبر 234 پے


ابو حنیفہ نے کہا ، مکروہ ہے کہ دعا کرنے والا یوں کہے کہ میں بحق فلاں ، یا بحق انبیاء ورسل تیرے ، یا بحق بیت حرام و مشعر حرام تجھ سے سوال کرتا ہوں






یہ فتوی اور دیوبند کا عقیدہ کی کتاب میں موجود عقیدہ سرا سر امام ابو حنیفہ کے عقیدہ سے ٹکرا رہا ہے






اب فیصلہ کریں کون عقیدہ میں صحیح ہے امام ابو حنیفہ جو قرآن و سنت والا عقیدہ رکھتے ہیں یا علماء دیوبند جن کا عقیدہ قرآن سے بھی ٹکراتا ہے اور امام ابو حنیفہ سے بھی بحوالہ ،


ابھی ابتداء ہے آگے اور بھی ایسے ہی ٹکرانے والے عقائد بیان کروں گا انشاءاللہ

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق