وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ(سورئہ النحل،۳۶)۔
٠٧/٠٩/٢٠١٠
٠٦/٠٩/٢٠١٠
اہل الحدیث کون ہیں؟ {فضیلة الشیخ محمد صالح المنجد رحمہ اللہ}
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ پر سعودی عرب کے نامور عالم دین شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اہل حدیث کون ہیں؟ جس کا جواب انہوں نے کچھ یوں دیا ملاحضہ کیجیے۔
اہل حدیث کون ہیں اوران کے امتیازات وصفات کیا ہیں ؟
اہل حدیث کون ہیں ؟
الحمد للہ
اہل حدیث کی اصطلاح ابتداہی سے اس گروہ کی پہچان رہی جو سنت نبویہ کی تعظیم اوراس کی نشراشاعت کا کام کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کے عقیدہ جیسا اعتقاد رکھتا اورکتاب وسنت کوسمجھنے کے لیے فہم صحابہ رضي اللہ تعالی عنہم پرعمل کرتے جو کہ خیرالقرون سے تعلق رکھتے ہیں ، اس سے وہ لوگ مراد نہیں جن کا عقیدہ سلف کے عقیدہ کے خلاف اوروہ صرف عقل اوررائ اوراپنے ذوق اورخوابوں پراعمال کی بنیادرکھتے اوررجوع کرتے ہيں۔
اوریہی وہ گروہ اورفرقہ ہے جوفرقہ ناجيہ اورطائفہ منصورہ جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :
( ہروقت میری امت سے ایک گروہ حق پررہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہيں نقصان نہیں دے سکے گا ، حتی کہ اللہ تعالی کا حکم آجاۓ تووہ گروہ اسی حالت میں ہوگا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1920 ) ۔
بہت سارے آئمہ کرام نے اس حدیث میں مذکور گروہ سے بھی اہل حدیث ہی مقصودو مراد لیا ہے ۔
اہل حدیث کے اوصاف میں آئمہ کرام نے بہت کچھ بیان کیا ہے جس میں کچھ کا بیان کیا جاتا ہے :
1 - امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی بہت اچھی تفسیر اورشرح کی ہے جس میں یہ بیان کیا گيا کہ طائفہ منصورہ جوقیامت تک قائم رہے گا اوراسے کوئ بھی ذلیل نہیں کرسکے گا ، وہ اہل حدیث ہی ہيں ۔
تواس تاویل کا ان لوگوں سے زیادہ کون حق دار ہے جو صالیحین کے طریقے پرچلیں اورسلف کے آثارکی اتباع کریں اوربدعتیوں اورسنت کے مخالفوں کوسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دبا کررکھیں اورانہیں ختم کردیں ۔ دیکھیں کتاب : معرفۃ علوم الحديث للحاکم نیسابوری ص ( 2 - 3 ) ۔
2 - خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اللہ تعالی نے انہیں ( اہل حدیث ) کوارکان شریعت بنایا اور ان کے ذریعہ سے ہرشنیع بدعت کی سرکوبی فرمائ تویہ لوگ اللہ تعالی کی مخلوق میں اللہ تعالی کے امین ہیں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی امت کے درمیان واسطہ و رابطہ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کی حفاظت میں کوئ دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ۔
ان کی روشنی واضح اور ان کے فضائل پھیلے ہوۓ اوران کے اوصاف روز روشن کی طرح عیاں ہيں ، ان کا مسلک ومذھب واضح و ظاہر اور ان کے دلائل قاطع ہیں اہل حدیث کے علاوہ ہر ایک گروہ اپنی خواہشات کی پیچھے چلتا اور اپنی راۓ ہی بہترقرار دیتا ہے جس پراس کا انحصار ہوتا ہے ۔
لیکن اہل حدیث یہ کام نہیں کرتے اس لیے کہ کتاب اللہ ان کا اسلحہ اورسنت نبویہ ان کی دلیل و حجت ہے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا گروہ ہیں اوران کی طرف ہی ان کی نسبت ہے ۔
وہ اھواء وخواہشا ت پرانحصار نہیں کرتے اورنہ ہی آراء کی طرف ان کا التفات ہے جوبھی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کی ان سے وہ قبول کی جاتی ہیں ، وہ حدیث کے امین اور اس پرعدل کرنے والے ہیں ۔
اہل حدیث دین کے محافظ اوراسے کے دربان ہيں ، علم کے خزانے اورحامل ہیں ،جب کسی حدیث میں اختلاف پیدا ہوجاۓ تواہل حدیث کی طرف ہی رجوع ہوتا ہے اورجو وہ اس پرحکم لگا دیں وہ قبول ہوتااورقابل سماعت ہوتا ہے ۔
ان میں فقیہ عالم بھی اوراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت کے امام بھی ، اورزھد میں یدطولی رکھنے والے بھی ، اورخصوصی فضیلت رکھنے والے بھی ، اورمتقن قاری بھی بہت اچھے خطیب بھی ، اوروہ جمہورعظیم بھی ہیں ان کا راستہ صراط مستقیم ہے ، اورہربدعتی ان کے اعتقاد سے مخالفت کرتا ہے اوران کے مذھب کے بغیر کامیابی اورسراٹھانا ممکن نہیں ۔
جس نے ان کے خلاف سازش کی اللہ تعالی نے اسے نیست نابود کردیا ، جس نے ان سے دشمنی کی اللہ تعالی نے اسے ذلیل ورسوا کردیا ، جوانہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہيں دے سکتا ، جوانہیں چھوڑ کرعلیحدہ ہوا کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔
اپنی دین کی احتیاط اورحفاظت کرنے والا ان کی راہنمائ کا فقیر ومحتاج ہے ، اوران کی طرف بری نظر سے دیکھنے والے کی آنکھیں تھک کرختم ہوجائيں گی ، اوراللہ تعالی ان کی مدد و نصرت کرنے پرقادر ہے ۔ دیکھیں کتاب : شرف اصحاب الحدیث ص ( 15 ) ۔
3 – شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
تواس سے یہ ظاہرہوا کہ فرقہ ناجیہ کے حقدارصرف اورصرف اہل حدیث و سنت ہی ہیں ، جن کے متبعین صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں اورکسی اورکے لیے تعصب نہیں کرتے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واحوال کوبھی اہل حدیث ہی سب سے زيادہ جانتے اوراس کا علم رکھتے ہيں ، اوراحادیث صحیحہ اورضعیفہ کے درمیان بھی سب سے زيادو وہی تیمیز کرتے ہيں ، ان کے آئمہ میں فقہاء بھی ہیں تواحادیث کے معانی کی معرفت رکھنے والے بھی اوران احادیث کی تصدیق ،اورعمل کے ساتھ اتباع و پیروی کرنے والے بھی ، وہ محبت ان سے کرتے ہیں جواحادیث سے محبت کرتا ہے اورجواحادیث سے دشمنی کرے وہ اس کے دشمن ہيں ۔
وہ کسی قول کو نہ تومنسوب ہی کرتے اورنہ ہی اس وقت تک اسے اصول دین بناتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو ، بلکہ وہ اپنے اعتقاد اور اعتماد کا اصل اسے ہی قرار دیتے ہیں جوکتاب وسنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم لاۓ ۔
اور جن مسائل میں لوگوں نے اختلاف کیا مثلا اسماءو صفات ، قدر ، وعید ، امربالمعروف والنھی عن المنکر ،وغیرہ کواللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاتے ہیں ، اورمجمل الفاظ جن میں لوگوں کا اختلاف ہے کی تفسیر کرتے ہیں ، جس کا معنی قران وسنت کےموافق ہو اسے ثابت کرتے اورجوکتاب وسنت کے مخالف ہواسے باطل قرار دیتے ہیں ، اورنہ ہی وہ ظن خواہشات کی پیروی کرتے ہيں ، اس لیے کہ ظن کی اتباع جھالت اوراللہ کی ھدایت کے بغیر خواہشات کی پیروی ظلم ہے ۔ مجموع الفتاوی ( 3/347 ) ۔
اورجس بات کا ذکر ضروری ہے وہ یہ کہ ہر وہ شخص اہل حدیث ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پرعمل پیرا ہوتا اورحدیث کوہرقسم کے لوگوں پرمقدم رکھتا ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم و حافظ اورفقیہ یا عام مسلمان ہی کیوں نہ ہووہ حدیث کومقدم رکھتا ہوتو اسے اہل حدیث کہا جاۓ گا ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہم اہل حدیث سے صرف حدیث لکھنے اور سننے اور روایت کرنے والا ہی مراد نہیں لیتے ، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی اوراس پرعمل کیا اوراس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی ، اور اسی طرح اس کی ظاہری اورباطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہل حديث کہلا نے کا زيادہ حقدار ہے ۔اوراسی طرح قرآن بھی عمل کرنے والا ہی ہے ۔
اوران کی سب سے کم خصلت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید اورحدیث نبویہ سے محبت کرتے اوراس کی اور اس کے معانی کی تلاش میں رہتے اوراس کے موجبات پرعمل کرتے ہیں ۔ مجموع الفتاوی ( 4/ 95 ) ۔
اوراس مسئلہ میں آئمہ کرام کی بحث و کلام توبہت زيادہ ہے ، آپ مزید تفصیل کے لیے اوپربیان کیے گۓ مراجع سے استفادہ کرسکتے ہیں ، اوراسی طرح مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی چوتھی جلد بھی فائد مند ہے ، اورسوال نمبر ( 206 ) اور ( 10554 ) کا جواب بھی ملاحظہ کریں ۔
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
اہل حدیث کون ہیں اوران کے امتیازات وصفات کیا ہیں ؟
اہل حدیث کون ہیں ؟
الحمد للہ
اہل حدیث کی اصطلاح ابتداہی سے اس گروہ کی پہچان رہی جو سنت نبویہ کی تعظیم اوراس کی نشراشاعت کا کام کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کے عقیدہ جیسا اعتقاد رکھتا اورکتاب وسنت کوسمجھنے کے لیے فہم صحابہ رضي اللہ تعالی عنہم پرعمل کرتے جو کہ خیرالقرون سے تعلق رکھتے ہیں ، اس سے وہ لوگ مراد نہیں جن کا عقیدہ سلف کے عقیدہ کے خلاف اوروہ صرف عقل اوررائ اوراپنے ذوق اورخوابوں پراعمال کی بنیادرکھتے اوررجوع کرتے ہيں۔
اوریہی وہ گروہ اورفرقہ ہے جوفرقہ ناجيہ اورطائفہ منصورہ جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :
( ہروقت میری امت سے ایک گروہ حق پررہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہيں نقصان نہیں دے سکے گا ، حتی کہ اللہ تعالی کا حکم آجاۓ تووہ گروہ اسی حالت میں ہوگا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1920 ) ۔
بہت سارے آئمہ کرام نے اس حدیث میں مذکور گروہ سے بھی اہل حدیث ہی مقصودو مراد لیا ہے ۔
اہل حدیث کے اوصاف میں آئمہ کرام نے بہت کچھ بیان کیا ہے جس میں کچھ کا بیان کیا جاتا ہے :
1 - امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی بہت اچھی تفسیر اورشرح کی ہے جس میں یہ بیان کیا گيا کہ طائفہ منصورہ جوقیامت تک قائم رہے گا اوراسے کوئ بھی ذلیل نہیں کرسکے گا ، وہ اہل حدیث ہی ہيں ۔
تواس تاویل کا ان لوگوں سے زیادہ کون حق دار ہے جو صالیحین کے طریقے پرچلیں اورسلف کے آثارکی اتباع کریں اوربدعتیوں اورسنت کے مخالفوں کوسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دبا کررکھیں اورانہیں ختم کردیں ۔ دیکھیں کتاب : معرفۃ علوم الحديث للحاکم نیسابوری ص ( 2 - 3 ) ۔
2 - خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اللہ تعالی نے انہیں ( اہل حدیث ) کوارکان شریعت بنایا اور ان کے ذریعہ سے ہرشنیع بدعت کی سرکوبی فرمائ تویہ لوگ اللہ تعالی کی مخلوق میں اللہ تعالی کے امین ہیں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی امت کے درمیان واسطہ و رابطہ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کی حفاظت میں کوئ دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ۔
ان کی روشنی واضح اور ان کے فضائل پھیلے ہوۓ اوران کے اوصاف روز روشن کی طرح عیاں ہيں ، ان کا مسلک ومذھب واضح و ظاہر اور ان کے دلائل قاطع ہیں اہل حدیث کے علاوہ ہر ایک گروہ اپنی خواہشات کی پیچھے چلتا اور اپنی راۓ ہی بہترقرار دیتا ہے جس پراس کا انحصار ہوتا ہے ۔
لیکن اہل حدیث یہ کام نہیں کرتے اس لیے کہ کتاب اللہ ان کا اسلحہ اورسنت نبویہ ان کی دلیل و حجت ہے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا گروہ ہیں اوران کی طرف ہی ان کی نسبت ہے ۔
وہ اھواء وخواہشا ت پرانحصار نہیں کرتے اورنہ ہی آراء کی طرف ان کا التفات ہے جوبھی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کی ان سے وہ قبول کی جاتی ہیں ، وہ حدیث کے امین اور اس پرعدل کرنے والے ہیں ۔
اہل حدیث دین کے محافظ اوراسے کے دربان ہيں ، علم کے خزانے اورحامل ہیں ،جب کسی حدیث میں اختلاف پیدا ہوجاۓ تواہل حدیث کی طرف ہی رجوع ہوتا ہے اورجو وہ اس پرحکم لگا دیں وہ قبول ہوتااورقابل سماعت ہوتا ہے ۔
ان میں فقیہ عالم بھی اوراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت کے امام بھی ، اورزھد میں یدطولی رکھنے والے بھی ، اورخصوصی فضیلت رکھنے والے بھی ، اورمتقن قاری بھی بہت اچھے خطیب بھی ، اوروہ جمہورعظیم بھی ہیں ان کا راستہ صراط مستقیم ہے ، اورہربدعتی ان کے اعتقاد سے مخالفت کرتا ہے اوران کے مذھب کے بغیر کامیابی اورسراٹھانا ممکن نہیں ۔
جس نے ان کے خلاف سازش کی اللہ تعالی نے اسے نیست نابود کردیا ، جس نے ان سے دشمنی کی اللہ تعالی نے اسے ذلیل ورسوا کردیا ، جوانہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہيں دے سکتا ، جوانہیں چھوڑ کرعلیحدہ ہوا کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔
اپنی دین کی احتیاط اورحفاظت کرنے والا ان کی راہنمائ کا فقیر ومحتاج ہے ، اوران کی طرف بری نظر سے دیکھنے والے کی آنکھیں تھک کرختم ہوجائيں گی ، اوراللہ تعالی ان کی مدد و نصرت کرنے پرقادر ہے ۔ دیکھیں کتاب : شرف اصحاب الحدیث ص ( 15 ) ۔
3 – شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
تواس سے یہ ظاہرہوا کہ فرقہ ناجیہ کے حقدارصرف اورصرف اہل حدیث و سنت ہی ہیں ، جن کے متبعین صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں اورکسی اورکے لیے تعصب نہیں کرتے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واحوال کوبھی اہل حدیث ہی سب سے زيادہ جانتے اوراس کا علم رکھتے ہيں ، اوراحادیث صحیحہ اورضعیفہ کے درمیان بھی سب سے زيادو وہی تیمیز کرتے ہيں ، ان کے آئمہ میں فقہاء بھی ہیں تواحادیث کے معانی کی معرفت رکھنے والے بھی اوران احادیث کی تصدیق ،اورعمل کے ساتھ اتباع و پیروی کرنے والے بھی ، وہ محبت ان سے کرتے ہیں جواحادیث سے محبت کرتا ہے اورجواحادیث سے دشمنی کرے وہ اس کے دشمن ہيں ۔
وہ کسی قول کو نہ تومنسوب ہی کرتے اورنہ ہی اس وقت تک اسے اصول دین بناتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو ، بلکہ وہ اپنے اعتقاد اور اعتماد کا اصل اسے ہی قرار دیتے ہیں جوکتاب وسنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم لاۓ ۔
اور جن مسائل میں لوگوں نے اختلاف کیا مثلا اسماءو صفات ، قدر ، وعید ، امربالمعروف والنھی عن المنکر ،وغیرہ کواللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاتے ہیں ، اورمجمل الفاظ جن میں لوگوں کا اختلاف ہے کی تفسیر کرتے ہیں ، جس کا معنی قران وسنت کےموافق ہو اسے ثابت کرتے اورجوکتاب وسنت کے مخالف ہواسے باطل قرار دیتے ہیں ، اورنہ ہی وہ ظن خواہشات کی پیروی کرتے ہيں ، اس لیے کہ ظن کی اتباع جھالت اوراللہ کی ھدایت کے بغیر خواہشات کی پیروی ظلم ہے ۔ مجموع الفتاوی ( 3/347 ) ۔
اورجس بات کا ذکر ضروری ہے وہ یہ کہ ہر وہ شخص اہل حدیث ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پرعمل پیرا ہوتا اورحدیث کوہرقسم کے لوگوں پرمقدم رکھتا ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم و حافظ اورفقیہ یا عام مسلمان ہی کیوں نہ ہووہ حدیث کومقدم رکھتا ہوتو اسے اہل حدیث کہا جاۓ گا ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہم اہل حدیث سے صرف حدیث لکھنے اور سننے اور روایت کرنے والا ہی مراد نہیں لیتے ، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی اوراس پرعمل کیا اوراس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی ، اور اسی طرح اس کی ظاہری اورباطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہل حديث کہلا نے کا زيادہ حقدار ہے ۔اوراسی طرح قرآن بھی عمل کرنے والا ہی ہے ۔
اوران کی سب سے کم خصلت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید اورحدیث نبویہ سے محبت کرتے اوراس کی اور اس کے معانی کی تلاش میں رہتے اوراس کے موجبات پرعمل کرتے ہیں ۔ مجموع الفتاوی ( 4/ 95 ) ۔
اوراس مسئلہ میں آئمہ کرام کی بحث و کلام توبہت زيادہ ہے ، آپ مزید تفصیل کے لیے اوپربیان کیے گۓ مراجع سے استفادہ کرسکتے ہیں ، اوراسی طرح مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی چوتھی جلد بھی فائد مند ہے ، اورسوال نمبر ( 206 ) اور ( 10554 ) کا جواب بھی ملاحظہ کریں ۔
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
کیا خود کو سگ مدینہ کہلوانا جائز ہے؟
سوال :کیا اپنے آپ کو سگ مدینہ یعنی ''مدینے کا کتا''کہنا یا لکھنا جائز ہے؟ قرآن و سنت کی رو سے وضاحت فرمائیں؟
جواب :
اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بڑے بہترین انداز میں فرمائی اور اس کو اپنی مخلوقات پر شرف و بزرگی عطا کی۔ عقل و شعور کے ذریعے جانوروں سے ممتاز کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''یقینا ہم نے بنی آدم کو عزت عطا اور خشکی اور تری میں ان کو سواری دی اور ہم نے ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا۔ اور انہیں بہت سی مخلوقات پر فضیلت و برتری عنایت کی۔''(اسراء : ۷۰)
جس خالق نے انسان کو احسن تقویم میں تخلیق کیا اور اسے اپنی دیگر مخلوقات پر برتری و منزلت اور اعلیٰ مقام عطا کیا، اگر انسان اس کا صحیح شکر گزار بند ہ بن کر رہتا ہے تو وہ کبھی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس انسان کی مثال کتے سے دی جائے کیونکہ کتا نجس و پلید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کتے کی مثال مکذوبین کی پیش کی ہے یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے اور استہزاء کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مثال کتے سے دی ہے اور اسے بری مثال کہا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) ان پر اس آدمی کا قصہ تلاوت کیجئے جس کو ہم نے اپنی آیات دیں ۔ وہ ان میں سے نکل گیا (کافر ہو گیا، اللہ سے پھر گیا ) سو شیطان اس کے پیچھے لگا۔ وہ گمراہوں سے ہو گیا اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں کی وجہ سے اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے زمین پر گرنا چاہا اور اپنی خواہش پر چلا تو اس کی مثال کتے کی طرح ہے۔ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی زبان لٹکائے یا اگر (اپنے حال پر اس کو چھوڑ دے ) تب بھی زبان لٹکائے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔ پس آپ ان پر یہ قصے بیان کر دیں تا کہ وہ غور و فکر کریں جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے ، ان کی مثلا بری ہے۔''(اعراف : ۱۷۵ تا ۱۷۷)
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ کتے کی مثال ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے مکذبین ہیں۔ اس کی آیات کی تصدیق کرنے والے صحیح مسلمانوں کی یہ مثال نہیں ہو سکتی۔ دوسری بات یہ عیاں ہوئی کہ کتے کی مثال بہت بری ہے۔ اس لئے کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے آپ کو کتا یا کتے کی مثل قرار دیتے ہوئے سگ مدینہ کہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''ہمارے لئے بری مثال نہیں ہے وہ آدمی جو اپنے ہبہ میں رجوع کرا ہے (یعنی کسی چیز کو ہمیشہ کے لئے دے دیتا ہے پھر اس سے واپس لے لیتا ہے) اس کتے کی مثال ہے جو اپنی قے کی طرف رجوع کرتا ہے (یعنی قے کرنے کے بعد اس کو چاٹتا اور کھاتا ہے)۔''(بخاری۱۴۴/۳(۲۶۶۳)، احمد۲۱۷/۱، ترمذی۵۹۶/۳، نسائی مع حاشیہ سندھی ۱۱۷/۲)
حدیثِ مبارکہ سے بھی معلوم ہوا کہ کتے کی مثال بہت بری مثال ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ کسی مسلمان کی مثال نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ''سگ'' یعنی کتا کہے کینوکہ کتا اتنا نجس و پلید ہے کہ جس برتن میں منہ ڈال دے، اسے شریعت مطہرہ کی رو سے سات مرتبہ دھونا پڑتا ہے کیونکہ ختم الرسل سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
''جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا چاہیے۔'' (بخاری مع فتح الباری۱۴۹/۱۔۲۴۰، مسلم مع نووی۳/۱۸۲، مسند ابی عوانہ۲۰۷/۱، نسائی۵۲/۱۔۵۳، ابنِ ماجہ۱۴۹/۱، حمیدی۴۲۸/۲، ابنِ خزیمہ۵۱/۱، احمد۲۴۵/۲، شرح السنہ۷۳/۲، دار قطنی۱/۶۳۔۶۴)
اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے:
''ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا وعدہ کیا لیکن جبرئیل علیہ السلام نہ آئے ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا نہ اس کے قاصد وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک پلا یعنی کتے کا بچہ چارپائی کے نیچے دکھائی دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے عائشہ یہ پلا اس جگہ کب آیا؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم مجھے علم نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا وہ باہر نکالا گیا۔ اس وقت جبرئیل علیہ السلام آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور میں تمہارے انتظار میں بیٹھا تھا لیکن تم نہیں آئے تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
''یہ کتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھا، اس نے مجھے روک رکھا تھا جس گھر میں کتا اور تصویر ہو ، ہم وہاں داخل نہیں ہوتے۔''(مسلم۱۹۹/۲، ترمذی، ابو دائود۷۴/۴، مسند احمد ۸۰/۱،۸۳/۳)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ کتا اتنا پلید و نجس جانور ہے جہاں یہ ہو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے اور جس برتن میں کتا منہ ڈال دے وہ برتن ساتھ مرتبہ دھونا پڑتا ہے۔ لہٰذا انسان کو اتنے نجس و پلید جانور کے مثال نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی اپنے آپ کو مدینے کا کتا کہنا چاہئے۔ یہ احکامات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ سمیت ہر جگہ کے کگوں سے متعلق ہیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو سگ مدینہ کہتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نسبت انتہائی تذلل و عاجزی پر مبنی ہے حالانکہ یہ شیطانی فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہ نسبت تذلل و عجز و انکساری والی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم اس سے محروم نہ ہوتے۔ خیر القرون کے لوگوں میں اس طرح کی نسبت کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ کسی نے اپنے آپ کو مدینے کا کتا کہا ہو۔ یہ نسبت موجودہ دور کے متصوفین اور قبوری لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے اور جو اپنے آپ کو سگ مدینہ کہتے ہیں ، ان کا دماغ اس قدر مفلوج و مائوف ہو چکا ہے کہ وہ کتوں کو بھی ولی اور صاحب کرامت بزرگ سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ جیسا کہ مولوی اشرف علی تھانوی اپنی کتاب امامد المشتاق ص۱۵۸ میں اور حاجی امداد اللہ اپنی کتاب شمائم امدادیہ ص۷۶حصہ دوئم پر لکھتے ہیں:
''جنید بغدادی بیٹھے تھے ایک کتاسامنے سے گزرا ، آپ کی نگاہ اس پر پڑ گئی، اس قدر صاحب کما ہو گیا کہ شہر کے کتے اس کے پیچھے دوڑے ۔ وہ ایک جگہ بیٹھ گیا۔ سب کتوں نے اس کے گرد بیٹھ کر مراقبہ کیا۔''
اسی طرح مولوی منظور احمد شاہ اپنی کتاب مدینة الرسول ص۴۰۸ پر ''مدینہ الرسول کے سگانِ محترم اور چند یادیں''کے عنوان کے تحت جماعت علی شاہ کا واقعہ لکھتا ہے کہ:
''آپ اپنے احباب میں مدینۃ الرسول کی کسی گلی میں کھڑے تھے کہ سامنے سے ایک زخمی کتا چیختا ہوا گزرا۔ اس کتے کو کسی نے پتھر مارا تھا۔ سید صاحب اس منظر کو دیکھ کر بے خود ہو گئے۔ اس بے خودی میں سگ طیبہ کو کلاوے میں لے لیا۔ اپنی دستار سے اس کا خون صاف کیا، پھر ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہا، اے سگ طیبہ ، خدارا بارگاہ رسالت میں میری شکایت نہ کر دینا پھر دیر تک سگ طیبہ کو کلاوے میں لے کر روتے رہے۔''
اسی طرح صفحہ۴۰۹ پر لکھتا ہے:
''۱۹۶۸ء کی بات ہے ۔ پیر سید حیدر علی شاہ نے مجھے مدینة الرسول میں یہ واقعہ سنایا۔ ایک حاضری پر سید نا نے فرمایا، آج مدینة الرسول کے درویشوں کی دعوت ہے، دیگیں پکوا دی گئیں ، بازار سے نئے برتن منگوا لئے گئے۔ عرض کی گئی حضور درویشوں کی آمد کا سلسلہ کب شروع ہو گا؟ فرمایا یہ درویش آئیں گے نہیں تمہیں ان کے حضور جا کر نذرانہ خود پیش کرنا ہو گا۔ فرمایا، یہ روٹیاں ، یہ گوشت مدینہ منورہ کے سگانِ محترم کو پیش کیا جائے۔ چنانچہ تلاش کر کے حکم کی تعمیل کی گئی۔''
اسی طرح ص۴۰۹،۴۱۰ پر ''سگ طیبہ کی نوازش'' کے عنوان کے تحت رقمطراز ہے۔
''ایک حاضری میں مدینہ منورہ سے واپسی کی سار رات سگانِ مدینہ کی زیارت میں صرف کر دی۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ ان کی قدم بوسی کر کے مدینہ سے رخصت ہوں۔ یہ بھی شوق تھا کہ سگ طیبہ کی آواز بھی ریکارڈ کر لوں۔ ٹیپ لے کر گھومتا رہا، کسی سگ نے مجھے اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا۔ جوں ہی کسی سگ طیبہ کے قریب گیا اُس نے مجھ سے نفرت کی اور دور چلا گیا۔ سحری کے قریب ایک سگ طیبہ کو سویا ہوا پیا دور بیٹھ گیا کہ اس کی بیداری پر سلام عرض کروں گا۔ ایک کار کی آواز سے وہ بیدار ہو گیا۔ میں نے قریب جانے کی کوشش کی تو وہ نفرت سے بھاگ گیا۔ میں نے وہیں کھڑے منت و سماجت کی اور خدا کے لئے قدم بوسی کا موقع دے دو۔ صبح مدینہ چھوٹ رہا پھر قسمت کی بات ہے
بات بنتی ہے میری ، تیرا بگڑتا ہے کیا
مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میری اس عاجزانہ درخواست پر وہ رک گیا۔ میں قریب ہوا تو ، قدم بوسی کی، اس کی آواز ٹیپ کی اور صبح کی اذان ہوتے ہی میں وہاں سے چلا تو کم وب بیش ٥٠ قدم سگ طیبہ میرے ساتھ آیا، سگ طیبہ کی اس نوازش کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا کہ مجھے قریب جانے کا موقع دیا اور ٥٠ قدم میرے ساتھ چل کر مجھے شرف بخشا۔''
قارئین کرام !مذکورہ بالا واقعات با حوالہ آپ کے سامنے ذکر کئے ہیں۔ ان سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جو انسان اللہ تعالیٰ کی توحید چھوڑ کر شرک کے دامن میں پناہ لے لیتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح منہج کو ترک کر کے بدعات اور رسوم ورواج سے اپنے آپ کو وابستہ کر لیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی رحمت اُٹھا لیتا ہے، پھر وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے حتیٰ کہ کتوں کو کلاوے میں لے کر روتا پھرتا ہے ، کبھی وہ کتوں کو بوسہ دیتا ہے اور کبھی گلیوں میں کتوں کی محبت سے گھومتا ہو راتیں گزارتا ہے اور کتے کی قدم بوسی اور آواز ریکارڈ کرنے کے لئے مارا مارا پھرتا ہے۔ کبھی کتوں سے عشق سے اپنے عشق کا اظہار کرتے ہوئے انہیں درویش بنا دیتا ہے اور کتوں کے دربار پر نذرانہ لے کر پیش ہوتا ہے۔ یہ گندے کام اپنے آپ کو انسانیت سے خارج کر کے کتاکہنے لگتا ہے۔ کتا خواہ بریلی شریف کا ہو یا دیوبند کا مدینے کا ہو یا مکے کا غرض کسی جگہ کا بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے متعلق شریعت مطہرہ کا یہی حکم ہے کہ وہ جس برتن میں منہ ڈال دے ، وہ برتن پلید ہو جاتا ہے۔ جہاں موجود ہو، وہاں رحمت کا فرشتہ داخل نہیں ہوتا۔ وہ کتے مدینے منورہ کے ہی تھے جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احکامات ارشاد فرمائے بلکہ بعض سگ مدینہ کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کہا جیسا کہ صحیح مسلم ، ابو دائود، ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ:
''سیاہ کتا شیطان ہے۔''
بعض سگ مدینہ وہ ہیں جن کے قتل کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا فرمایا:
''وہ کالا کتا جس کی آنکھوں پر دو نقطے ہوں ، اسے قتل کر دو اس لئے کہ وہ شیطان ہے۔'' (مسلم ، کتاب البیوع)
اسی طرح سگ مکہ معظمہ کو بھی حالت ِ احرام میں قتل کرنا جائز ہے۔ (متفق علیہ )
اسی طرح ایک مقام پر فرمایا:
''جب تم رات کو کتے کی آواز سنو تو اعوذ باللہ پڑھو۔''(ابو دائود، احمد ، حاکم ، بلوغ الامانی۴۶۰/۱۴)
ان تمام مفاسد کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی مثال کو برا قرار دیاہے ، اللہ تعالیٰ نے برا کہا ہے لہٰذا جس کی مثال کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے برا قرار دیا ہو تو کسی انسان کو لائق نہیں کہ وہ ان احکامات کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو کتا کہے۔ اپنے آپ کو کتا کہنا عقل و نقل کے بھی خلاف اور ناجائز و غیر مشروع ہے۔
جواب :
اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بڑے بہترین انداز میں فرمائی اور اس کو اپنی مخلوقات پر شرف و بزرگی عطا کی۔ عقل و شعور کے ذریعے جانوروں سے ممتاز کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''یقینا ہم نے بنی آدم کو عزت عطا اور خشکی اور تری میں ان کو سواری دی اور ہم نے ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا۔ اور انہیں بہت سی مخلوقات پر فضیلت و برتری عنایت کی۔''(اسراء : ۷۰)
جس خالق نے انسان کو احسن تقویم میں تخلیق کیا اور اسے اپنی دیگر مخلوقات پر برتری و منزلت اور اعلیٰ مقام عطا کیا، اگر انسان اس کا صحیح شکر گزار بند ہ بن کر رہتا ہے تو وہ کبھی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس انسان کی مثال کتے سے دی جائے کیونکہ کتا نجس و پلید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کتے کی مثال مکذوبین کی پیش کی ہے یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے اور استہزاء کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مثال کتے سے دی ہے اور اسے بری مثال کہا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) ان پر اس آدمی کا قصہ تلاوت کیجئے جس کو ہم نے اپنی آیات دیں ۔ وہ ان میں سے نکل گیا (کافر ہو گیا، اللہ سے پھر گیا ) سو شیطان اس کے پیچھے لگا۔ وہ گمراہوں سے ہو گیا اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں کی وجہ سے اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے زمین پر گرنا چاہا اور اپنی خواہش پر چلا تو اس کی مثال کتے کی طرح ہے۔ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی زبان لٹکائے یا اگر (اپنے حال پر اس کو چھوڑ دے ) تب بھی زبان لٹکائے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔ پس آپ ان پر یہ قصے بیان کر دیں تا کہ وہ غور و فکر کریں جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے ، ان کی مثلا بری ہے۔''(اعراف : ۱۷۵ تا ۱۷۷)
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ کتے کی مثال ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے مکذبین ہیں۔ اس کی آیات کی تصدیق کرنے والے صحیح مسلمانوں کی یہ مثال نہیں ہو سکتی۔ دوسری بات یہ عیاں ہوئی کہ کتے کی مثال بہت بری ہے۔ اس لئے کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے آپ کو کتا یا کتے کی مثل قرار دیتے ہوئے سگ مدینہ کہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''ہمارے لئے بری مثال نہیں ہے وہ آدمی جو اپنے ہبہ میں رجوع کرا ہے (یعنی کسی چیز کو ہمیشہ کے لئے دے دیتا ہے پھر اس سے واپس لے لیتا ہے) اس کتے کی مثال ہے جو اپنی قے کی طرف رجوع کرتا ہے (یعنی قے کرنے کے بعد اس کو چاٹتا اور کھاتا ہے)۔''(بخاری۱۴۴/۳(۲۶۶۳)، احمد۲۱۷/۱، ترمذی۵۹۶/۳، نسائی مع حاشیہ سندھی ۱۱۷/۲)
حدیثِ مبارکہ سے بھی معلوم ہوا کہ کتے کی مثال بہت بری مثال ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ کسی مسلمان کی مثال نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ''سگ'' یعنی کتا کہے کینوکہ کتا اتنا نجس و پلید ہے کہ جس برتن میں منہ ڈال دے، اسے شریعت مطہرہ کی رو سے سات مرتبہ دھونا پڑتا ہے کیونکہ ختم الرسل سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
''جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا چاہیے۔'' (بخاری مع فتح الباری۱۴۹/۱۔۲۴۰، مسلم مع نووی۳/۱۸۲، مسند ابی عوانہ۲۰۷/۱، نسائی۵۲/۱۔۵۳، ابنِ ماجہ۱۴۹/۱، حمیدی۴۲۸/۲، ابنِ خزیمہ۵۱/۱، احمد۲۴۵/۲، شرح السنہ۷۳/۲، دار قطنی۱/۶۳۔۶۴)
اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے:
''ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا وعدہ کیا لیکن جبرئیل علیہ السلام نہ آئے ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا نہ اس کے قاصد وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک پلا یعنی کتے کا بچہ چارپائی کے نیچے دکھائی دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے عائشہ یہ پلا اس جگہ کب آیا؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم مجھے علم نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا وہ باہر نکالا گیا۔ اس وقت جبرئیل علیہ السلام آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور میں تمہارے انتظار میں بیٹھا تھا لیکن تم نہیں آئے تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
''یہ کتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھا، اس نے مجھے روک رکھا تھا جس گھر میں کتا اور تصویر ہو ، ہم وہاں داخل نہیں ہوتے۔''(مسلم۱۹۹/۲، ترمذی، ابو دائود۷۴/۴، مسند احمد ۸۰/۱،۸۳/۳)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ کتا اتنا پلید و نجس جانور ہے جہاں یہ ہو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے اور جس برتن میں کتا منہ ڈال دے وہ برتن ساتھ مرتبہ دھونا پڑتا ہے۔ لہٰذا انسان کو اتنے نجس و پلید جانور کے مثال نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی اپنے آپ کو مدینے کا کتا کہنا چاہئے۔ یہ احکامات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ سمیت ہر جگہ کے کگوں سے متعلق ہیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو سگ مدینہ کہتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نسبت انتہائی تذلل و عاجزی پر مبنی ہے حالانکہ یہ شیطانی فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہ نسبت تذلل و عجز و انکساری والی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم اس سے محروم نہ ہوتے۔ خیر القرون کے لوگوں میں اس طرح کی نسبت کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ کسی نے اپنے آپ کو مدینے کا کتا کہا ہو۔ یہ نسبت موجودہ دور کے متصوفین اور قبوری لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے اور جو اپنے آپ کو سگ مدینہ کہتے ہیں ، ان کا دماغ اس قدر مفلوج و مائوف ہو چکا ہے کہ وہ کتوں کو بھی ولی اور صاحب کرامت بزرگ سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ جیسا کہ مولوی اشرف علی تھانوی اپنی کتاب امامد المشتاق ص۱۵۸ میں اور حاجی امداد اللہ اپنی کتاب شمائم امدادیہ ص۷۶حصہ دوئم پر لکھتے ہیں:
''جنید بغدادی بیٹھے تھے ایک کتاسامنے سے گزرا ، آپ کی نگاہ اس پر پڑ گئی، اس قدر صاحب کما ہو گیا کہ شہر کے کتے اس کے پیچھے دوڑے ۔ وہ ایک جگہ بیٹھ گیا۔ سب کتوں نے اس کے گرد بیٹھ کر مراقبہ کیا۔''
اسی طرح مولوی منظور احمد شاہ اپنی کتاب مدینة الرسول ص۴۰۸ پر ''مدینہ الرسول کے سگانِ محترم اور چند یادیں''کے عنوان کے تحت جماعت علی شاہ کا واقعہ لکھتا ہے کہ:
''آپ اپنے احباب میں مدینۃ الرسول کی کسی گلی میں کھڑے تھے کہ سامنے سے ایک زخمی کتا چیختا ہوا گزرا۔ اس کتے کو کسی نے پتھر مارا تھا۔ سید صاحب اس منظر کو دیکھ کر بے خود ہو گئے۔ اس بے خودی میں سگ طیبہ کو کلاوے میں لے لیا۔ اپنی دستار سے اس کا خون صاف کیا، پھر ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہا، اے سگ طیبہ ، خدارا بارگاہ رسالت میں میری شکایت نہ کر دینا پھر دیر تک سگ طیبہ کو کلاوے میں لے کر روتے رہے۔''
اسی طرح صفحہ۴۰۹ پر لکھتا ہے:
''۱۹۶۸ء کی بات ہے ۔ پیر سید حیدر علی شاہ نے مجھے مدینة الرسول میں یہ واقعہ سنایا۔ ایک حاضری پر سید نا نے فرمایا، آج مدینة الرسول کے درویشوں کی دعوت ہے، دیگیں پکوا دی گئیں ، بازار سے نئے برتن منگوا لئے گئے۔ عرض کی گئی حضور درویشوں کی آمد کا سلسلہ کب شروع ہو گا؟ فرمایا یہ درویش آئیں گے نہیں تمہیں ان کے حضور جا کر نذرانہ خود پیش کرنا ہو گا۔ فرمایا، یہ روٹیاں ، یہ گوشت مدینہ منورہ کے سگانِ محترم کو پیش کیا جائے۔ چنانچہ تلاش کر کے حکم کی تعمیل کی گئی۔''
اسی طرح ص۴۰۹،۴۱۰ پر ''سگ طیبہ کی نوازش'' کے عنوان کے تحت رقمطراز ہے۔
''ایک حاضری میں مدینہ منورہ سے واپسی کی سار رات سگانِ مدینہ کی زیارت میں صرف کر دی۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ ان کی قدم بوسی کر کے مدینہ سے رخصت ہوں۔ یہ بھی شوق تھا کہ سگ طیبہ کی آواز بھی ریکارڈ کر لوں۔ ٹیپ لے کر گھومتا رہا، کسی سگ نے مجھے اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا۔ جوں ہی کسی سگ طیبہ کے قریب گیا اُس نے مجھ سے نفرت کی اور دور چلا گیا۔ سحری کے قریب ایک سگ طیبہ کو سویا ہوا پیا دور بیٹھ گیا کہ اس کی بیداری پر سلام عرض کروں گا۔ ایک کار کی آواز سے وہ بیدار ہو گیا۔ میں نے قریب جانے کی کوشش کی تو وہ نفرت سے بھاگ گیا۔ میں نے وہیں کھڑے منت و سماجت کی اور خدا کے لئے قدم بوسی کا موقع دے دو۔ صبح مدینہ چھوٹ رہا پھر قسمت کی بات ہے
بات بنتی ہے میری ، تیرا بگڑتا ہے کیا
مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میری اس عاجزانہ درخواست پر وہ رک گیا۔ میں قریب ہوا تو ، قدم بوسی کی، اس کی آواز ٹیپ کی اور صبح کی اذان ہوتے ہی میں وہاں سے چلا تو کم وب بیش ٥٠ قدم سگ طیبہ میرے ساتھ آیا، سگ طیبہ کی اس نوازش کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا کہ مجھے قریب جانے کا موقع دیا اور ٥٠ قدم میرے ساتھ چل کر مجھے شرف بخشا۔''
قارئین کرام !مذکورہ بالا واقعات با حوالہ آپ کے سامنے ذکر کئے ہیں۔ ان سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جو انسان اللہ تعالیٰ کی توحید چھوڑ کر شرک کے دامن میں پناہ لے لیتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح منہج کو ترک کر کے بدعات اور رسوم ورواج سے اپنے آپ کو وابستہ کر لیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی رحمت اُٹھا لیتا ہے، پھر وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے حتیٰ کہ کتوں کو کلاوے میں لے کر روتا پھرتا ہے ، کبھی وہ کتوں کو بوسہ دیتا ہے اور کبھی گلیوں میں کتوں کی محبت سے گھومتا ہو راتیں گزارتا ہے اور کتے کی قدم بوسی اور آواز ریکارڈ کرنے کے لئے مارا مارا پھرتا ہے۔ کبھی کتوں سے عشق سے اپنے عشق کا اظہار کرتے ہوئے انہیں درویش بنا دیتا ہے اور کتوں کے دربار پر نذرانہ لے کر پیش ہوتا ہے۔ یہ گندے کام اپنے آپ کو انسانیت سے خارج کر کے کتاکہنے لگتا ہے۔ کتا خواہ بریلی شریف کا ہو یا دیوبند کا مدینے کا ہو یا مکے کا غرض کسی جگہ کا بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے متعلق شریعت مطہرہ کا یہی حکم ہے کہ وہ جس برتن میں منہ ڈال دے ، وہ برتن پلید ہو جاتا ہے۔ جہاں موجود ہو، وہاں رحمت کا فرشتہ داخل نہیں ہوتا۔ وہ کتے مدینے منورہ کے ہی تھے جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احکامات ارشاد فرمائے بلکہ بعض سگ مدینہ کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کہا جیسا کہ صحیح مسلم ، ابو دائود، ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ:
''سیاہ کتا شیطان ہے۔''
بعض سگ مدینہ وہ ہیں جن کے قتل کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا فرمایا:
''وہ کالا کتا جس کی آنکھوں پر دو نقطے ہوں ، اسے قتل کر دو اس لئے کہ وہ شیطان ہے۔'' (مسلم ، کتاب البیوع)
اسی طرح سگ مکہ معظمہ کو بھی حالت ِ احرام میں قتل کرنا جائز ہے۔ (متفق علیہ )
اسی طرح ایک مقام پر فرمایا:
''جب تم رات کو کتے کی آواز سنو تو اعوذ باللہ پڑھو۔''(ابو دائود، احمد ، حاکم ، بلوغ الامانی۴۶۰/۱۴)
ان تمام مفاسد کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی مثال کو برا قرار دیاہے ، اللہ تعالیٰ نے برا کہا ہے لہٰذا جس کی مثال کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے برا قرار دیا ہو تو کسی انسان کو لائق نہیں کہ وہ ان احکامات کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو کتا کہے۔ اپنے آپ کو کتا کہنا عقل و نقل کے بھی خلاف اور ناجائز و غیر مشروع ہے۔
اتباع اور اطاعت کا تو ہمیںاللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے لیکن تقلید کا نہیں ۔
اتباع اور اطاعت کا تو ہمیںاللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے لیکن تقلید کا نہیں ۔
جیساکہ قرآن مجید میںمتعدد مرتبہ اس کی صراحت کی گئی ہے۔
اتباع کا معنیٰ :
تابع ہونا
اتباع کی قرآن سے دلیل:
{قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ } (31) سورة آل عمران
{اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ} (3) سورة الأعراف
{الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} (157) سورة الأعراف
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ} (21) سورة لقمان
{اتَّبِعُوا مَن لاَّ يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ} (21) سورة يــس
{وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ العَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ} (55) سورة الزمر
اطاعت کا معنیٰ :
فرمانبردار ہونا
اطاعت کی قرآن سے دلیل :
{قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ} (32) سورة آل عمران
{وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} (132) سورة آل عمران
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً} (59) سورة النساء
{وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَاحْذَرُواْ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ} (92) سورة المائدة
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنفَالِ قُلِ الأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بِيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ} (1) سورة الأنفال
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ} (20) سورة الأنفال
{وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ} (46) سورة الأنفال
{قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ} (54) سورة النــور
{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} (56) سورة النــور
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ} (33) سورة محمد
{أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ} (13) سورة المجادلة
{وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ} (12) سورة التغابن
{فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} (16) سورة التغابن
تقلید کا معنیٰ :
بغیر غور و فکر کے کسی کی پیروی کرنا (المنجد ص 713)
تقلید کی قرآن سے دلیل :
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اب آپ خود ہی سمجھ لیجئے کہ تابع اور مطیع اور مقلِّد میںکیا فرق ہے ۔ اور تابع اور مطیع ہونے کے دلائل تو ہمیں قرآن سے مل گئے لیکن مقلد ہونے کی کوئی دلیل نہیںملی اور نہ ہی ملے گی ۔ ان شاءاللہ
جیساکہ قرآن مجید میںمتعدد مرتبہ اس کی صراحت کی گئی ہے۔
اتباع کا معنیٰ :
تابع ہونا
اتباع کی قرآن سے دلیل:
{قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ } (31) سورة آل عمران
{اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ} (3) سورة الأعراف
{الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} (157) سورة الأعراف
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطَانُ يَدْعُوهُمْ إِلَى عَذَابِ السَّعِيرِ} (21) سورة لقمان
{اتَّبِعُوا مَن لاَّ يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ} (21) سورة يــس
{وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ العَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ} (55) سورة الزمر
اطاعت کا معنیٰ :
فرمانبردار ہونا
اطاعت کی قرآن سے دلیل :
{قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ} (32) سورة آل عمران
{وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} (132) سورة آل عمران
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً} (59) سورة النساء
{وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَاحْذَرُواْ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِينُ} (92) سورة المائدة
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنفَالِ قُلِ الأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بِيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ} (1) سورة الأنفال
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ} (20) سورة الأنفال
{وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ} (46) سورة الأنفال
{قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ} (54) سورة النــور
{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} (56) سورة النــور
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ} (33) سورة محمد
{أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ} (13) سورة المجادلة
{وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ} (12) سورة التغابن
{فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} (16) سورة التغابن
تقلید کا معنیٰ :
بغیر غور و فکر کے کسی کی پیروی کرنا (المنجد ص 713)
تقلید کی قرآن سے دلیل :
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اب آپ خود ہی سمجھ لیجئے کہ تابع اور مطیع اور مقلِّد میںکیا فرق ہے ۔ اور تابع اور مطیع ہونے کے دلائل تو ہمیں قرآن سے مل گئے لیکن مقلد ہونے کی کوئی دلیل نہیںملی اور نہ ہی ملے گی ۔ ان شاءاللہ
جن ائمہ کی تقلید رائج ہے ان کی تقلید کی تردید میں انہیںکے اقوال ملاحظہ ہوں
امام ابوحنیفہ رح فرماتے ہیں :
1۔اِذَا صَحَّ الْحَدِيثُ فَهُوَ مَذْهَبِی (شامی ص150)
کہ صحیح حدیث میرا مذہب ہے
2۔لَا ينْبَغِی لِمَنْ يَعْرِفْ دَلِيْلِی اَنْ يُفْتِیَ بِکَلامِیْ (عقد الجيد)
کسی شخص کو لائق نہیں کہ بغیر دلیل (قرآن اور حدیث اور اجماع) معلوم کرنے کےمیرے کلام پر فتوے دے بلکہ آپ نے یہاںتک فرمایا :
3۔اِذَا کَانَ قَوْلُ الصَّحَابَةِ يُخَالِفُهُ قَالَ اُتْرُکُوا قَوْلِی بِقَوْلِ الصَّحابَةِ (عقد الجيد)
اگر میرا کوئی قول صحابہ کے قول کے خلاف ہو تو میرے قول کو چھوڑ کر ان کے قول پر عمل کیا جائے
امام مالک رح فرماتے ہیں :
1۔اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اُخْطِئُ وَاُصِيْبُ فَانْظُرُوا فِی رَأیِ وَافَقَ الْکِتَابَ وَالسُّنَّةَ فَخُذُوهُ وَکُلَّمَا لَمْ يُوَافِقِ الْکِتَابَ وَالسُّنَّةَ فَاتْرُکُوْهُ (الاتقاظ ص 102)
میںانسان ہوں میرے فتویٰ میں خطا اور صواب کا احتمال ہے ۔ اگر کتاب و سنت کے مطابق ہو تو عمل کرو ورنہ چھوڑ دو
2۔مَا مِنْ اَحَدٍ اِلَّا هُوَ مَأخُوذٌ مِنْ کَلَامِهِ وَمَرْدُوْدٌ عَلَيْهِ اِلَّا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (اليواقيت ج1 ص96)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر ایک کا فتویٰ ردّ و قبولیت کی صلاحیت رکھتا ہے
امام شافعی رح فرماتے ہیں :
اِذَا قُلْتُ قَوْلاً وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خِلَافَ قَوْلِی فَمَا يَصَحُّ مِنْ حَدِيْثِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَوْلیٰ فَلَا تُقَلِّدُوْنِیْ (عقد الجيد ص54)
جب میںکوئی فتویٰ دوں اور حدیث رسول اس کے خلاف ہو تو میرے فتویٰ کو چھوڑ کر حدیث صحیح پر عمل ہو اور میری تقلید نہ کرو
امام احمد رح فرماتے ہیں :
لَا تُقَلِّدُوْنِیْ وَلَا تُقَلِّدَنَّ مَالِکاً وَلَا الْاَوْزَاعِیَ وَلَا النَّخْعِیَّ وَلَا غَيْرَهُمْ وَخُذِ الْاَحْکَامَ مِنْ حَيْثُ اَخَذُوا مِنَ الْکِتَابَ وَ السُّنَّةِ (اليواقيت جلد 2 ص96)
نہ میری تقلید کرو اور نہ امام مالک ، اوزاعی ، نخعی اور نہ کسی اور کی بلکہ قرآن اور حدیث سے احکام لو
شاہ عبدالقادر جیلانی رح فرماتے ہیں :
اِجْعَلِ الْکِتَابَ وَالسُّنَّةَ اِمَامَکَ وَانْظُرْ فِيْهِمَا بِتَأمُّلٍ وَتَدَبُّرٍ وَلَا تَغْتَرَّ بِالْقَالِ وَالْقِيْلِ وَالْهَوَسِ (فتوحالغيب مقاله ص36)
قرآن اور حدیث کو اپنا امام بناؤ ، انہیں میںغور و فکر کرو کسی کے خیال اور رائے پر مغتر نہیں ہونا چاہیئے
تقلید، معنی/تعریف/ابتدا
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
لفظی معنی:
تقلید کے معنی ہیں سوچے سمجھے بغیر یا بلا دلیل کسی کی پیروی کیجائے۔ یہ لفظ قلادہ سے بنا ہےاور قلادہ اس پٹے کو کہتے ہیں جو جانوروں کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہےاور اس میں رسی ڈال کر جانوروں کو کھینچا جاتا ہے۔
اصطلاحی معنی:
اصطلاح میں تقلید کے معنی ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے قول پر، اسکی دلیل معلوم کیے بغیر عمل کرے "المعجم الوسیط، الاحکام فی اصول الاحکام ص 835"
قابلِ تقلید کون؟
رسول اکرم فدا ابی و امی صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کسی بھی انسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی تقلید یا اتباع کا کسی کو حکم دے اور نہ کسی کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ کسی بھی انسان کے قول یا عقیدے کی دلیل جانے بغیر اس کی تقلید یا اتباع کرے سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کہ آپ کی تقلید آپ کی اتباع اور آپ کی اطاعت فرض ہے اور دنیا کا کوئی بھی انسان آپ سے دلیل طلب کرنے کا مجاز نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خود دلیل ہیں، لیکن آپ کی حیثیت محمد بن عبداللہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی حیثیت سے ہے اور اللہ تعالٰی نے اپنے ساتھ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت اور اتباع کو بھی فرض قرار دیا ہے۔
معلوم ہوا کہ ائمہ اربعہ میں سے نہ کسی نے کسی کو اپنی تقلید کا حکم دیا ہے اور نہ وہ دے سکتا تھا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتا تو دائرہ اسلام سے
خارج ہو جاتا، اس کامسلمانوں کا امام ہونا تو دور کی بات ہے۔
تقلید کی ابتداء:
یہی وجہ ہے کہ جن عظیم شخصیتوں سے فقہی مذاہب منسوب ہیں ان میں سے ہر ایک نے ایک سے زیادہ مواقع پر یہ صراحت کردی ہے کہ ان کا مذہب کتاب و سنت ہی ہے اور ان کے جن اقوال کی دلیل کسی کو نہ معلوم ہو اس کے لئے ان پر عمل کرنا جائز نہیں اور دلیل سے مراد اللہ کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے۔
ائمہ اربعہ کی طرح ان کے عالی مقام شاگردوں کا دامن بھی اپنے ائمہ کی تقلید سے پاک ہے کیونکہ اگر وہ ان کے مقلد ہوتے تو ان سے اختلاف نہ کرتے جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ہر امام کے شاگردوں اور ان کے شاگردوں کے ان اختلافات کو جمع کیا جائے جو معتبر سندوں کے ساتھ مستند کتابوں میں مدون ہیں تو کئی جلدوں میں کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ دراصل کسی ایک امام کی تقلید چوتھی صدی ہجری سے شروع ہوئی پھر بھی ہر مسلک سے نسبت رکھنے والوں میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جو اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔
نوٹ: یہ اقتباس ڈاکٹر سید سعید عابدی ۔ جدہ کے مقالہ "تقلید، کتاب و سنت کی روشنی میں" سے لیا گیا جو جمعہ 28 نومبر 2008 کو روشنی ۔ اردو نیوز میں شائع ہوا۔
٠٥/٠٩/٢٠١٠
تقلید کی حقیقت
تقلید کی حقیقت
زبان: اردو
اضافہ کی تاریخ: Mar 08,2008
تاليف : محمود الحسن جمیری
نظر ثانی کرنے والا : شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
آئٹم کے ساتھ منسلک : 1
مختصر بیان: تقلید کی حقیقت : زیر نظر کتاب میں مولف حفظہ اللہ نے کتاب وسنت اورعلماء کرام کے أقوال کی روشنی میں تقلید کی حقیقت کی نقاب کشائی کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اس اندہی تقلید کا قرون مفضلہ میں کہیں وجود نہ تھا, یہ تو چوتھی صدی ہجری کی پیداوار ہے جس میں آج تک امت محمدیہ کا کافی طبقہ مبتلا ہے , نیزتقلید کے قائلین کی دلیلوں کا شرعی تفصیلی جائزہ لےکر انکا مسکت جواب بھی دیا ہے , اورکتاب وسنت کی اتباع کو لازم قراردیا ہے. مصنف خود بھی اسی اندہی تقلید اورمذھبی تعصب کا شکار تھے رب کریم نے اپنے فضل وکرم سے انھیں کتاب وسنت کی اتباع کی توفیق بخشی. میرے خیال میں اس کتا ب کا مطلعہ اندھی تقلید میں مبتلا لوگوں کیلئے ہدایت کا سبب ثابت ہوگا ان شاء اللہ.
: عربي - ไทย - മലയാളം - বাংলা - Türkçe - Türkçe
کھولنےکی تعداد: 3216
پہنچنے کا رابط : http://www.islamhouse.com/p/78600
زبان: اردو
اضافہ کی تاریخ: Mar 08,2008
تاليف : محمود الحسن جمیری
نظر ثانی کرنے والا : شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی
آئٹم کے ساتھ منسلک : 1
مختصر بیان: تقلید کی حقیقت : زیر نظر کتاب میں مولف حفظہ اللہ نے کتاب وسنت اورعلماء کرام کے أقوال کی روشنی میں تقلید کی حقیقت کی نقاب کشائی کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اس اندہی تقلید کا قرون مفضلہ میں کہیں وجود نہ تھا, یہ تو چوتھی صدی ہجری کی پیداوار ہے جس میں آج تک امت محمدیہ کا کافی طبقہ مبتلا ہے , نیزتقلید کے قائلین کی دلیلوں کا شرعی تفصیلی جائزہ لےکر انکا مسکت جواب بھی دیا ہے , اورکتاب وسنت کی اتباع کو لازم قراردیا ہے. مصنف خود بھی اسی اندہی تقلید اورمذھبی تعصب کا شکار تھے رب کریم نے اپنے فضل وکرم سے انھیں کتاب وسنت کی اتباع کی توفیق بخشی. میرے خیال میں اس کتا ب کا مطلعہ اندھی تقلید میں مبتلا لوگوں کیلئے ہدایت کا سبب ثابت ہوگا ان شاء اللہ.
: عربي - ไทย - മലയാളം - বাংলা - Türkçe - Türkçe
کھولنےکی تعداد: 3216
پہنچنے کا رابط : http://www.islamhouse.com/p/78600
علماء ديوبند کا احناف سے اختلاف اور احناف کا قرآن و سنت سے
احباب ديوبندى جو اپنے آپ کو حنفى ديوبندى کہلواتے ہيں جب کہ اصل ميں يہ لوگ گمراہ کن مرجيئہ فرقے سےتعلق رکھتے ہيں ٫ جيساکہ خود عبد القادر جيلانى نے ان کا شمار گمراہ کن فرقوں ميں کيا ہے اور انہيں حہنمى کہا ہے۔ (غنيۃالطالبين)
ديوبندى اللہ رب العزت کے صفات ميں تعويليں کرتے ہيں اور تعويل کرکے صفات بارى کا انکار کرتے ہيں٫اور اسى طرح ايمان کے گھٹنے اور بڑھنے کا بھى انکار کرتے ہيں۔۔
اختصار کہ ساتھ تھوڑى سى وضاحت کرديتا ہوں
مرجيہ
مرجيہ فرقہ خوارج فرقے کي ضد ميں نکلا تھا ٫ ان لوکوں کا قول يہ ہے کہ مومن کو گنا سے مطلقا کوئى ضر نہيں پہنچے گا ٫ جس طرح کافر کو اطاعت سے کوئى فائدہ نہيں پہنچ سکتا٫ کيونکہ خوارج کا يہ قول تھا
انسان بڑے گنہاہ کا ارتکاب کرکے اسلام سے خارج ہوجاتا ہے٫تو خوارج کے مقبلہ مبں پھريہ مرجيئہ منظر عام پھر آئےاس عقيدے کو سب سے پہلے عراق کے شہر بصرہ ميں حسان بن بلال مزنى نے اختيار کيا تھا کچھ مورخين اس فرقے کے بانى کانام ابوسلمت سمان بتاتے ہيں جو ۱۵۲ھ ميں فوت ہوا ( اسلا م ميں بدعت اور ضلالت کہ محرکات صفہ ۸۳ ۔ نوٹ ۔ امام ابو حنيفہ کا بھى يہى قول تھا اور امام ابو حنيفہ کى موت ۱۵۰ ھ ميں ہوئى تھى ۔۔۔
يہى قول ديوبنديوں کا بھي ہے کہ عمل ايمان ميں شامل نہيں صرف اقرا بلسان کافى ہے ٫ ديوبنديوں کى کتاب (تعليم اسلام ) تقريظ ٫٫٫ مفتى نظام الدين شامزى ٫٫ مولانا انور بدخشانى ۔
ترتيب٫٫ ٫ مولوى محمد عمران عثمان ورفقاء ۔
تأليف٫٫٫ مولانا مفتى محمد کفايت اللہ ۔
مدرسہ ابراہيم الاسلاميہ ٫ ملک سوسائٹى گلزار چوک کراچى پاکستان۔
اس کتاب کہ صفہ نمبر ۳ ميں ايک سوال ايمان مجمل کيا ہے ؟ جواب ميں , ايمان لايا ميں اللہ پر جيسا کہ وہ اپنے ناموں اور صفتوں کے ساتھ ہے ٫ اورميں نے اس کے تمام احکام قبول کئے۔
ديوبند و احناف عمل کو ايمان ميں شامل نہيں کرتے ۔
يعني يہ کہدينا ہى کافى کہ ميں اللہ پر ايمان لايا٫ وہ مکمل مومن ہے٫ اس کے بعد اگر کوئى انسان چاہے کتنے بڑے سے بڑا گناہ کا ارتکاب کرے وہ مومن ہي رہے گأ ۔ اس گناہ سے ايمان ميں کوئى نصان نہ ہوگأ۔۔۔
انکے نذيک عمل شرط نہيں ايمان ميں حالانکہ انکے کہ اس قول سے يہ معنى نکلتے ہيں٫ انبياء ٫ رسل ٫ ولى اور ايک عام مسلمان کا ايمان يکساں ہے بس شرط اقرار بالسان ہے۔ و عمل بالجورح
حالانکہ قرآن و حديث ميں کئى مقام پر موجود ہے کہ ايمان يکسا نہيں ہے۔
سوره انفال ميں اللہ سبحان وتعالى فرتا ہے (إنما المؤمنون الذين إذا ذكر الله وجلت قلوبهم وإذا تليت عليهم آياته زادتهم إيمانا وعلى ربهم يتوكلون)۔
سورة الفتح (هو الذي أنزل السكينة في قلوب المؤمنين ليزدادوا إيمانا مع إيمانهم )
حديث ۱
اسمعیل، مالک، عمرو بن یحیی، مازنی، یحیی مازنی، ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (جب) جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالی (فرشتوں) سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو (دوزخ سے) نکال لو، پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر) سیاہ ہوچکے ہونگے، پھر وہ نہر حیا، یا نہر حیات میں ڈال دئیے جائیں گے، تب وہ تروتازہ ہوجائیں گے، جس طرح دانہ (تروتازگی) کے ساتھ پانی کے ساتھ اگتا ہے، (اے شخص) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ دانہ کیسا سبز کونپل زردی مائل نکلتا ہے؟ اس حدیث کے ایک راوی عمر نے اپنی روایت میں لفظ حیا کی جگہ حیات کا لفظ اور من ایمان کی بجائے من خیر روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری ۔ ایمان کا بیان ۔ اہل ایمان کا اعمال میں ایک دوسرے سے زیادہ ہونے کا بیان ۔ حديث ۲۱۔
حديث ۲
ابو الیمان، شعیب، زہری، عامربن سعد بن ابی وقاص، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کو (مال) دیا اور سعد بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا (نہیں دیا) جو مجھے سب سے اچھا معلوم ہوتا تھا، تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص سے اعراض کیا، اللہ کی قسم میں اسے مومن سمجھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (مومن سمجھتے ہو؟) تو میں نے تھوڑی دیر سکوت کیا، پھر جو کچھ مجھے اس شخص کے بارے میں معلوم تھا اس نے مجبور کردیا اور میں نے پھر وہی بات کی، یعنی یہ کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص سے اعراض کیا، اللہ کی قسم! میں اسے مومن جانتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (مومن جانتے ہو) یا مسلم؟ پھر میں کچھ دیر چپ رہا، اس کے بعد جو کچھ میں اس شخص کے بارے میں جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کر دیا اور میں نے پھر اپنی بات کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر وہی فرمایا، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! میں ایک شخص کو اس خوف سے کہ کہیں (ایسا نہ ہو کہ اگر اس کو نہ دیا جائے تو وہ کافر ہو جائے اور) اللہ تعالی اس کو آگ میں سرنگوں نہ ڈال دے، دے دیتا ہوں (حالانکہ دوسرا شخص مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، اس کو نہیں دیتا کیونکہ اس کی نسبت ایسا خیال نہیں ہوتا)
صحیح بخاری ’ ایمان کا بیان ’ باب اگرصدق دل سے اسلام نہ لایا۔ حديث 26
سلف کے اقوال لا إيمان بدون عمل۔ http://www.saaid.net/Doat/abu_sarah/68.htm
کچھ جہميہ کے بارے ميں اختصار کے ساتھ ۔
جہميہ
ہشام بن عبد المک کے عہد ميں ايک شخص جعد بن درہم جس نے اللہ کى صفات کا اانکار کيا تھا کوفہ ميں جعد کا ايک شاگرد تھا ٫ جہم بن صفوان جو اگرچہ کوئي عالم نہيں تھا ٫ مگر بڑا چرب زبان اور فصيح اللسان تھا اس نے جعد بن درہم کے خيالات کي اشاعت نہايت زور و شور سے کي ٫ بہت سے لوگ اسکے ہم خيال ہوگئے تھے ٫ اس فرقے کا نام جہم کے نام سے منسوب ہوکر ( جہميہ ) ہوا ۔
جعد بن درہم کو خالد بن عبدااللہ القسري جو عراق کا حاکم تھا اس وقت عين بقرا عيد کے دن شہر واسط ميں يہ کہتے ہوئے جعد کو قتل کيا ۔ ( ايھا الناس اضحوا تقبل اللہ ضحاياکم انى مصنع بالجعد بن درہم انہ زعم ان اللہ لم يتخد ابراہيم خليلا و لم يکلم موسى تلکيما) ترجمہ ۔ لوگوں ! قربانياں کرو اللہ تعالى تمہاري قربانيوں کو قبول فرمائے ٫ مين جعد بن درہم کو ذبح کررہاہوں ٫ اس کا باطل گمان ہے کہ اللہ نے ابراہيم عليہ السلام کو دوست نہيں بنايا ٫ اور نہ ہي حضرت موسى عليہ السلام سے کلام کيا ٫٫
جعد بن درہم کو قتل کردينے پر حضرت حسن بصري اور ديگر علماء سلف نے خالد کا شکريہ ادا کيا تھا ٫
اور جہم بن صفوان کو بني اميہ کے آخري خليفہ مروان الحمار کے عہد حکومت ميں نصر بن يسار حاکم خراسان کے حکم پر قتل کرديا گيا تھا ۔ التحفة العراقية ص:68 العقيدة الأصفهانية ص:23 درء التعارض 5/244 الصواعق المرسلة 3/1071
نوٹ ۔۔۔ بعض اہل علم کہتے ہيں اس روايت ميں ضعف ہے روايت معلق ہے ۔
جعد بن درہم اللہ کے باقى صفات کا بھي انکار کيا کرتا تھا ۔ جيسے ديوبند کہ اکابرين اور انکے مقلدين کرتے ہيں ۔
اللہ کہ صفات اوراستواء کي تعويل کرکے صفات اور اللہ کي جہت کا انکار کرتے ہيں ۔۔۔
علماء ديوبند کى معروف کتاب المہند على المفند جو کہ 60 علماء ديوبند سے مصدقا شدہ ہے کہ اس ميں جو عقائد درج ہيں وہ عقائد ہمارے اور ہمارے اکابرين کہ ہيں ۔
اس کتاب کے صفہ نمبر ۴۷ ميں سوال نمبر ۱۳ – ۱۴ کے جواب ميں انہونے اللہ کہ آسمانوں پر مستوى ہونے سے انکار کيا اور تعويليں کي اور اللہ تعالى کے آسمانوں پر مستوى ہونے پر انکار کيا ۔
دليل کہ لئے Al Muhannad Al Al Mufannad Yani Aqaid Ulama E Ahle Sunnat Deoband
آئيے اب احناف کا اور امام ابو حنيفہ کا عقيدہ ديکھتے ہيں کہ ان کا کيا عقيدہ تھا استواء على العرش پر احناف کى معتبر کتاب فقہ اکبر کي شرح منح الروض الازھر فى شرح فقہ اکبر مصنف على بن سلطان محمد القارى صفہ نمبر ۳۳۳ ميں لکھتے ہيں کہ بلخى نے امام ابو حنيفہ سے پوچھا اگر کوءي يہ کہيں کہ مجھے نہيں پتہ کہ اللہ آسمانوں ميں ہے يا زميں پر ٫ امام ابوحنيفہ نے کہا اسنے کفر کہا کيونکہ اللہ تعالى قرآن ميں سورہ طہ آيت نمبر ۴ ميں فرماتا ہے ( الرحمن على العرش استوى ) اوراللہ کا عرش ۷ آسمانوں کے اوپر ہے ۔ بلخى نے کہا اگر وہ يہ کہے کہ اللہ عرش پر تو ہے مگر ميں يہ نہيں جانتا کہ عرش آسمانوں کے اوپر ہے يا زمين پر امام ابو حنيفہ نے کہا وہ کافر ہے ٫کيونکہ اس نے آسمانوں کا انکار کيا اور جس نے عرش کے آسمانوں پر انکار کيا سوائے کفر کہ کچھ نہ کيا۔
يہى عقيدہ انکى دوسرى کتاب عقيدہ طحاويہ ميں مذکور ہے کہ جس نے آسمان کا انکار کيا وہ کافر ہے ۔۔۔
ألسلام ميں بنيادى چيز عقيدہ ہے نہ کہ فروعى مسائل ٫ اب اگر کوئي مرزئي روزہ ٫ نماز ٫ زکاۃ ٫ يا حج سنت کے مطابق ادا کريں تو کيا انکى يہ اعمال اللہ کے يہاں قابل قبول ہونگے ؟ يا کوئي شيعہ عقيدۃ تو اسکا وہي شيعوں والا ہوں ہومگرباقى معملات سنت کے مطابق ادا کريں تو کيا اسکے يہ اعمال قبول ہونگے؟
نہيں ہونگے کيونکہ اس کے عقائد ہى کفريہ ہيں ٫ ٹھيک اسي طرح سے ديوبندى مسائل تو امام ابو حنيفہ سے ليتے ہيں مگرعقائد نہيں۔ عقائد ميں يہ ماتدرى ٫ سہروردى اور نہ جانے کيا چوچو کا مربع ہے۔۔
اس سوال کےجواب ميں اگثر ديوبندى يہ جواب ديتے ہيں کہ ہر فن کا ايک امام ہوتا ہے ۔
اب سوال يہاں يہ پيدا ہوتا ہے کہ عجيب سي بات ہے امام صاحب نے اہم ترين چيز کو چھوڑ کر اس چپز کي طرف تھک دوڑکي جوعقائد کہ بعد آتے ہيں۔ تو کيا امام صاحب نے عقائد کو چھوڑ کر مسائل کو ترجيح دي؟
يہاں ديوبند سے ايک سوال ہے اگر ان کے پاس کوئى شيعہ يا مرزئي يا ہندوں يا کوئى بھي کافر آجائے تو اس کو يہ سب سے پہلے کس چيزکي دعوت دے گے فرعى مسائل کى يا عقيدہ توحيد کى؟
يقينا ديوبند کا جواب ہوگا سب سے پہلے عقيدے کى دعوت دي جائے گى پھر مسائل کى طرف۔
اب مٍسئلہ يہاں يہ پيدا ہوتا ہے جو عقيدے کو نا سمھج سکے وہ معملات کو کيسے سمھجے گا ؟
امام صاحب نے عقيدے جيسى بنيادى اور اساسى چيز کو چھوڑ کر ان مسائل کو ترجيح دى ٫جن کا ان پر کوئى وبال نہ تھا نہ ہى اللہ ان سے باز پرست کرتے ٫ آخر وہ لوگ بھى تو جنت ميں جائے گے يا گئے جو نہ تو عالم تھے نہ امام۔
يا پھر کہى يہ وہي شيعيوں والا عقيدۃ تو نہيں کہ امام من جانب اللہ ہوتا ہے ؟
ديوبندى اللہ رب العزت کے صفات ميں تعويليں کرتے ہيں اور تعويل کرکے صفات بارى کا انکار کرتے ہيں٫اور اسى طرح ايمان کے گھٹنے اور بڑھنے کا بھى انکار کرتے ہيں۔۔
اختصار کہ ساتھ تھوڑى سى وضاحت کرديتا ہوں
مرجيہ
مرجيہ فرقہ خوارج فرقے کي ضد ميں نکلا تھا ٫ ان لوکوں کا قول يہ ہے کہ مومن کو گنا سے مطلقا کوئى ضر نہيں پہنچے گا ٫ جس طرح کافر کو اطاعت سے کوئى فائدہ نہيں پہنچ سکتا٫ کيونکہ خوارج کا يہ قول تھا
انسان بڑے گنہاہ کا ارتکاب کرکے اسلام سے خارج ہوجاتا ہے٫تو خوارج کے مقبلہ مبں پھريہ مرجيئہ منظر عام پھر آئےاس عقيدے کو سب سے پہلے عراق کے شہر بصرہ ميں حسان بن بلال مزنى نے اختيار کيا تھا کچھ مورخين اس فرقے کے بانى کانام ابوسلمت سمان بتاتے ہيں جو ۱۵۲ھ ميں فوت ہوا ( اسلا م ميں بدعت اور ضلالت کہ محرکات صفہ ۸۳ ۔ نوٹ ۔ امام ابو حنيفہ کا بھى يہى قول تھا اور امام ابو حنيفہ کى موت ۱۵۰ ھ ميں ہوئى تھى ۔۔۔
يہى قول ديوبنديوں کا بھي ہے کہ عمل ايمان ميں شامل نہيں صرف اقرا بلسان کافى ہے ٫ ديوبنديوں کى کتاب (تعليم اسلام ) تقريظ ٫٫٫ مفتى نظام الدين شامزى ٫٫ مولانا انور بدخشانى ۔
ترتيب٫٫ ٫ مولوى محمد عمران عثمان ورفقاء ۔
تأليف٫٫٫ مولانا مفتى محمد کفايت اللہ ۔
مدرسہ ابراہيم الاسلاميہ ٫ ملک سوسائٹى گلزار چوک کراچى پاکستان۔
اس کتاب کہ صفہ نمبر ۳ ميں ايک سوال ايمان مجمل کيا ہے ؟ جواب ميں , ايمان لايا ميں اللہ پر جيسا کہ وہ اپنے ناموں اور صفتوں کے ساتھ ہے ٫ اورميں نے اس کے تمام احکام قبول کئے۔
ديوبند و احناف عمل کو ايمان ميں شامل نہيں کرتے ۔
يعني يہ کہدينا ہى کافى کہ ميں اللہ پر ايمان لايا٫ وہ مکمل مومن ہے٫ اس کے بعد اگر کوئى انسان چاہے کتنے بڑے سے بڑا گناہ کا ارتکاب کرے وہ مومن ہي رہے گأ ۔ اس گناہ سے ايمان ميں کوئى نصان نہ ہوگأ۔۔۔
انکے نذيک عمل شرط نہيں ايمان ميں حالانکہ انکے کہ اس قول سے يہ معنى نکلتے ہيں٫ انبياء ٫ رسل ٫ ولى اور ايک عام مسلمان کا ايمان يکساں ہے بس شرط اقرار بالسان ہے۔ و عمل بالجورح
حالانکہ قرآن و حديث ميں کئى مقام پر موجود ہے کہ ايمان يکسا نہيں ہے۔
سوره انفال ميں اللہ سبحان وتعالى فرتا ہے (إنما المؤمنون الذين إذا ذكر الله وجلت قلوبهم وإذا تليت عليهم آياته زادتهم إيمانا وعلى ربهم يتوكلون)۔
سورة الفتح (هو الذي أنزل السكينة في قلوب المؤمنين ليزدادوا إيمانا مع إيمانهم )
حديث ۱
اسمعیل، مالک، عمرو بن یحیی، مازنی، یحیی مازنی، ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (جب) جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالی (فرشتوں) سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو (دوزخ سے) نکال لو، پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر) سیاہ ہوچکے ہونگے، پھر وہ نہر حیا، یا نہر حیات میں ڈال دئیے جائیں گے، تب وہ تروتازہ ہوجائیں گے، جس طرح دانہ (تروتازگی) کے ساتھ پانی کے ساتھ اگتا ہے، (اے شخص) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ دانہ کیسا سبز کونپل زردی مائل نکلتا ہے؟ اس حدیث کے ایک راوی عمر نے اپنی روایت میں لفظ حیا کی جگہ حیات کا لفظ اور من ایمان کی بجائے من خیر روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری ۔ ایمان کا بیان ۔ اہل ایمان کا اعمال میں ایک دوسرے سے زیادہ ہونے کا بیان ۔ حديث ۲۱۔
حديث ۲
ابو الیمان، شعیب، زہری، عامربن سعد بن ابی وقاص، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کو (مال) دیا اور سعد بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا (نہیں دیا) جو مجھے سب سے اچھا معلوم ہوتا تھا، تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص سے اعراض کیا، اللہ کی قسم میں اسے مومن سمجھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (مومن سمجھتے ہو؟) تو میں نے تھوڑی دیر سکوت کیا، پھر جو کچھ مجھے اس شخص کے بارے میں معلوم تھا اس نے مجبور کردیا اور میں نے پھر وہی بات کی، یعنی یہ کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ نے فلاں شخص سے اعراض کیا، اللہ کی قسم! میں اسے مومن جانتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (مومن جانتے ہو) یا مسلم؟ پھر میں کچھ دیر چپ رہا، اس کے بعد جو کچھ میں اس شخص کے بارے میں جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کر دیا اور میں نے پھر اپنی بات کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر وہی فرمایا، بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! میں ایک شخص کو اس خوف سے کہ کہیں (ایسا نہ ہو کہ اگر اس کو نہ دیا جائے تو وہ کافر ہو جائے اور) اللہ تعالی اس کو آگ میں سرنگوں نہ ڈال دے، دے دیتا ہوں (حالانکہ دوسرا شخص مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتا ہے، اس کو نہیں دیتا کیونکہ اس کی نسبت ایسا خیال نہیں ہوتا)
صحیح بخاری ’ ایمان کا بیان ’ باب اگرصدق دل سے اسلام نہ لایا۔ حديث 26
سلف کے اقوال لا إيمان بدون عمل۔ http://www.saaid.net/Doat/abu_sarah/68.htm
کچھ جہميہ کے بارے ميں اختصار کے ساتھ ۔
جہميہ
ہشام بن عبد المک کے عہد ميں ايک شخص جعد بن درہم جس نے اللہ کى صفات کا اانکار کيا تھا کوفہ ميں جعد کا ايک شاگرد تھا ٫ جہم بن صفوان جو اگرچہ کوئي عالم نہيں تھا ٫ مگر بڑا چرب زبان اور فصيح اللسان تھا اس نے جعد بن درہم کے خيالات کي اشاعت نہايت زور و شور سے کي ٫ بہت سے لوگ اسکے ہم خيال ہوگئے تھے ٫ اس فرقے کا نام جہم کے نام سے منسوب ہوکر ( جہميہ ) ہوا ۔
جعد بن درہم کو خالد بن عبدااللہ القسري جو عراق کا حاکم تھا اس وقت عين بقرا عيد کے دن شہر واسط ميں يہ کہتے ہوئے جعد کو قتل کيا ۔ ( ايھا الناس اضحوا تقبل اللہ ضحاياکم انى مصنع بالجعد بن درہم انہ زعم ان اللہ لم يتخد ابراہيم خليلا و لم يکلم موسى تلکيما) ترجمہ ۔ لوگوں ! قربانياں کرو اللہ تعالى تمہاري قربانيوں کو قبول فرمائے ٫ مين جعد بن درہم کو ذبح کررہاہوں ٫ اس کا باطل گمان ہے کہ اللہ نے ابراہيم عليہ السلام کو دوست نہيں بنايا ٫ اور نہ ہي حضرت موسى عليہ السلام سے کلام کيا ٫٫
جعد بن درہم کو قتل کردينے پر حضرت حسن بصري اور ديگر علماء سلف نے خالد کا شکريہ ادا کيا تھا ٫
اور جہم بن صفوان کو بني اميہ کے آخري خليفہ مروان الحمار کے عہد حکومت ميں نصر بن يسار حاکم خراسان کے حکم پر قتل کرديا گيا تھا ۔ التحفة العراقية ص:68 العقيدة الأصفهانية ص:23 درء التعارض 5/244 الصواعق المرسلة 3/1071
نوٹ ۔۔۔ بعض اہل علم کہتے ہيں اس روايت ميں ضعف ہے روايت معلق ہے ۔
جعد بن درہم اللہ کے باقى صفات کا بھي انکار کيا کرتا تھا ۔ جيسے ديوبند کہ اکابرين اور انکے مقلدين کرتے ہيں ۔
اللہ کہ صفات اوراستواء کي تعويل کرکے صفات اور اللہ کي جہت کا انکار کرتے ہيں ۔۔۔
علماء ديوبند کى معروف کتاب المہند على المفند جو کہ 60 علماء ديوبند سے مصدقا شدہ ہے کہ اس ميں جو عقائد درج ہيں وہ عقائد ہمارے اور ہمارے اکابرين کہ ہيں ۔
اس کتاب کے صفہ نمبر ۴۷ ميں سوال نمبر ۱۳ – ۱۴ کے جواب ميں انہونے اللہ کہ آسمانوں پر مستوى ہونے سے انکار کيا اور تعويليں کي اور اللہ تعالى کے آسمانوں پر مستوى ہونے پر انکار کيا ۔
دليل کہ لئے Al Muhannad Al Al Mufannad Yani Aqaid Ulama E Ahle Sunnat Deoband
آئيے اب احناف کا اور امام ابو حنيفہ کا عقيدہ ديکھتے ہيں کہ ان کا کيا عقيدہ تھا استواء على العرش پر احناف کى معتبر کتاب فقہ اکبر کي شرح منح الروض الازھر فى شرح فقہ اکبر مصنف على بن سلطان محمد القارى صفہ نمبر ۳۳۳ ميں لکھتے ہيں کہ بلخى نے امام ابو حنيفہ سے پوچھا اگر کوءي يہ کہيں کہ مجھے نہيں پتہ کہ اللہ آسمانوں ميں ہے يا زميں پر ٫ امام ابوحنيفہ نے کہا اسنے کفر کہا کيونکہ اللہ تعالى قرآن ميں سورہ طہ آيت نمبر ۴ ميں فرماتا ہے ( الرحمن على العرش استوى ) اوراللہ کا عرش ۷ آسمانوں کے اوپر ہے ۔ بلخى نے کہا اگر وہ يہ کہے کہ اللہ عرش پر تو ہے مگر ميں يہ نہيں جانتا کہ عرش آسمانوں کے اوپر ہے يا زمين پر امام ابو حنيفہ نے کہا وہ کافر ہے ٫کيونکہ اس نے آسمانوں کا انکار کيا اور جس نے عرش کے آسمانوں پر انکار کيا سوائے کفر کہ کچھ نہ کيا۔
يہى عقيدہ انکى دوسرى کتاب عقيدہ طحاويہ ميں مذکور ہے کہ جس نے آسمان کا انکار کيا وہ کافر ہے ۔۔۔
ألسلام ميں بنيادى چيز عقيدہ ہے نہ کہ فروعى مسائل ٫ اب اگر کوئي مرزئي روزہ ٫ نماز ٫ زکاۃ ٫ يا حج سنت کے مطابق ادا کريں تو کيا انکى يہ اعمال اللہ کے يہاں قابل قبول ہونگے ؟ يا کوئي شيعہ عقيدۃ تو اسکا وہي شيعوں والا ہوں ہومگرباقى معملات سنت کے مطابق ادا کريں تو کيا اسکے يہ اعمال قبول ہونگے؟
نہيں ہونگے کيونکہ اس کے عقائد ہى کفريہ ہيں ٫ ٹھيک اسي طرح سے ديوبندى مسائل تو امام ابو حنيفہ سے ليتے ہيں مگرعقائد نہيں۔ عقائد ميں يہ ماتدرى ٫ سہروردى اور نہ جانے کيا چوچو کا مربع ہے۔۔
اس سوال کےجواب ميں اگثر ديوبندى يہ جواب ديتے ہيں کہ ہر فن کا ايک امام ہوتا ہے ۔
اب سوال يہاں يہ پيدا ہوتا ہے کہ عجيب سي بات ہے امام صاحب نے اہم ترين چيز کو چھوڑ کر اس چپز کي طرف تھک دوڑکي جوعقائد کہ بعد آتے ہيں۔ تو کيا امام صاحب نے عقائد کو چھوڑ کر مسائل کو ترجيح دي؟
يہاں ديوبند سے ايک سوال ہے اگر ان کے پاس کوئى شيعہ يا مرزئي يا ہندوں يا کوئى بھي کافر آجائے تو اس کو يہ سب سے پہلے کس چيزکي دعوت دے گے فرعى مسائل کى يا عقيدہ توحيد کى؟
يقينا ديوبند کا جواب ہوگا سب سے پہلے عقيدے کى دعوت دي جائے گى پھر مسائل کى طرف۔
اب مٍسئلہ يہاں يہ پيدا ہوتا ہے جو عقيدے کو نا سمھج سکے وہ معملات کو کيسے سمھجے گا ؟
امام صاحب نے عقيدے جيسى بنيادى اور اساسى چيز کو چھوڑ کر ان مسائل کو ترجيح دى ٫جن کا ان پر کوئى وبال نہ تھا نہ ہى اللہ ان سے باز پرست کرتے ٫ آخر وہ لوگ بھى تو جنت ميں جائے گے يا گئے جو نہ تو عالم تھے نہ امام۔
يا پھر کہى يہ وہي شيعيوں والا عقيدۃ تو نہيں کہ امام من جانب اللہ ہوتا ہے ؟
کون کہتا ہے حنفیت و مرزائیت میں جدائی ہوگی
کیا مرزاغلام احمد قادیانی حنفی تھا؟
کی مزید وضاحت کرے گا
اس مضمون کے رائیٹر مولانا حزب اللہ صاحب ہیں اورمضمون یہ ماہنامہ دعوت اھل حدیث حیدرآباد ختم نبوت نمبر زینت اشاعت بن چکا ہے
کیا مرزا قادیانی حنفی تھا؟
حنفی مذہب کی کہانی بہت ہی عجیب ہے چناچہ علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی فرماتےہیں:
فکم من حنفی حنفی فی الفروع معتزلی عقیدۃ کالز محشری جا راللہ مؤلف الکشاف وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکم من حنفی حنفی فرعا مرجی او زیدی اصلاً وبالجملۃ فالحنفیۃ لہا فروع باعتبار اختلاف العقیدۃ فمنہم الشیعۃ ومنہم المعتزلۃ ومنہم المرجئۃ۔ (الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل ص ۲۷۔ دوسرا نسخہ ص ۳۸۵۔۶۸۳ بتحقیق ابی غدہ)
"عقیدہ کے اعتبار سے حنفی مذہب کی کئی شاخیں اور فروع ہیں ۔بہت سارے حنفی شیعہ، معتزلہ اور مرجئہ ہیں، درحقیقت حنفی فرقہ وہ جماعت ہے جو فروعی مسائل اور شرعی اعمال میں امام ابو حنفیہ کی تقلید کرتے ہیں اگرچہ ان کا عقیدہ امام صاحب کے موافق ہو یا نہ ہو، اگر موافق ہوگا تو وہ کامل حنفی کہلائے گا مگر جو دوسرے فرقوں کے موافق عقیدہ رکھے گا وہ بھی حنفی ہی کہلائے گا لیکن اس کےعقیدے کی وضاحت کی جائے گی، اس طرز پر بہت سارے لوگ فروعی مسائل میں حنفی ہیں اور عقیدہ کے اعتبار سے معتزلی مثلًا زمخشری، نجم الدین الزاہدی، عبدالجبار، ابو ہاشم اور جبائی وغیرہم، اسی طرح کتنے ہی فروعی مسائل میں حنفی ہیں اور اصولی مسائل کے اعتبار سے مرجیہ اور زیدی شیعہ ہیں۔"
اسی طرح احناف کے مرشدو ممدوح شیخ عبدالقادر جیلانی نے بہتر (۷۲) گمراہ فرقوں کی تفصیل ان کے ناموں کے ساتھ لکھی ہے ،مرجئہ فرقہ کی بارہ شاخوں میں سے ایک "حنفیہ" کو قرار دیا ہے اور حنفیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
وام الحنفیۃ فہم بعض اصحاب ابی حنیفۃ النعمان بن ثابت زعموان الایمان ہو المعرفۃ والاقرار بااللہ ورسولہ۔۔۔۔۔
یعنی حنفیہ، ابو حنیفہ کے بعض اصحاب کا نام ہے جن کا نظریہ یہ ہے کہ ایمان اللہ اور اس کے رسول ﷺکی معرفت اور اقرار کا نام ہے۔
شیخ جیلانی فرقہ ناجیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
واما الفرقۃ الناجیۃ فہی اہل السنۃ والجماعۃ ۔۔۔۔۔ وما اسمہم الّا اصحاب الحدیث واہل السنۃ۔
یعنی فرقہ ناجیہ اہل النسۃ والجماعۃ ہے جن کا نام اصحاب الحدیث (اھل الحدیث) اور اہل السنۃ ہی ہے۔ (غنیۃ الطالبین ص ۲۱۴- ۲۲۱، ۲۲۲ )
یعنی حنفیہ شیخ جیلانی کے نزدیک گمراہ فرقوں میں سے ہے جن کا اہل السنۃ والجماعۃ سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔
اسی لئے شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "میں یہ بات علیٰ وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ موجودہ تمام مذہبی فتنوں مثلاً عیسائی مشنری، کمیونزم تحریک، چکڑالوی، انکار حدیث، مرزائی، شیعہ وغیرہ کی بنیاد فقہ حنفی کی کتابوں میں ملتی ہے۔ پھر اگرچہ کسی نے پَر سے پرندہ بنایا ہو، لیکن اس پَر کا وجود فقہ حنفی میں ہوتا ہے۔" (مروجہ فقہ کی حقیقت (سندھی) ص ۳۰)
قارئین کرام: اس کے برعکس آج کل دیوبندیوں اور بریلویوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مرزاقادیانی اہلحدیث تھا اس کی مثال "الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے" کی طرح ہے، مرزا اگر اہلحدیث ہوتا تو دعویٰ الوہیت، نبوت، مسیحیت وغیرہ کبھی نہ کرتا کیونکہ ائمہ کرام کے نزدیک اہلحدیث کی تعریف ہی یہی ہے کہ:
صاحب الحدیث عندنا من یستعمل الحدیث۔ (مناقب الامام احمد بن حنبل ص ۸۰۲)
"یعنی ہمارے نزدیک اہلحدیث وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کی حدیث پرعمل پیرا ہو" جب کہ احادیث میں تو اس قسم کے دعوؤں کو کفر و شرک کہا گیا ہے۔تو مرزا کا اہلحدیث ہونا محال ہے۔
اصولی جواب
اہلحدیث کے عظیم سپوت مولانا پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: اگر بفرض ومحال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ مرتد ہونے سے پہلے یہ لوگ اہلحدیث تھے۔ تو اس سے اہلحدیث پر کیا حرف آتا ہے؟ آپ لوگ مقلد ہیں جو ایسی بے عقلی کی باتیں کرتے ہیں اگر تقلید نے آپ کی مت نہ ماردی ہوتی تو ایسی احمقانہ باتیں کبھی نہ کرتے، آپ بتائیں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں میں سے جو مرتد ہوئے ان سے آپ ﷺ یا جماعت صحابہ پر کوئی حرف آیا؟ شیطان کے راندہ درگاہ ہونے سے جماعت ملائکہ پر کوئی اثر پڑا؟ اگر اسلام سے کوئی منحرف ہوجائے تو اسلام پر کوئی دھبہ آسکتا ہے؟ کسی کے راہ حق سے ہٹ جانےسے راہ حق خراب نہیں ہوتی بلکہ صاف ہوجاتی ہے۔ جب ایک مسلمان اقالہ بیعت کرکے مدینہ چھوڑ کر جانے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ مدینہ بھٹی ہے یہ منافق اور گندے کو برداشت نہیں کرتا۔ جس کے اندر گند ہوتا ہے وہ حق کو چھوڑ جاتا ہے اس سے حق پر طعن نہیں آتا، دیوبندی حضرات احمد رضا خان بریلوی کو کیا سمجھتے ہیں؟ ان کے نزدیک وہ امام الضالین والمضلین نہ تھے؟ اسی طرح بریلوی حضرات رشید احمد گنگوہی، اشرف علی تھانوی اور دیگر دیوبندی اکابرین کو ان سے کم "القابات" سے نہیں نوازتے۔ ان کا ظہور حنفیت میں ہی ہوا اور حنفیت میں ہی پروان چڑھے حنیتس کو ہی انہوں نے چار چاند لگائے ۔ آپ بتائیں ان کی وجہ سے کیا حنفیت پلید ہوگئی؟ اگر ان کے ظہور سے حنفیت کو کچھ نہیں ہوا تو مرزا یا کسی اور کے خروج سے اہلحدیث کو کیا ہوجائے گا؟" (رسائل بہاولپوری ص ۱۸۳ بتصرف یسیر)
ہمارے استاد فضلۃو الشیخ حافظ محمد سلیم صاحب حفظہ اللہ )شیخ الحدیث المعہد السلفی کراچی( نے بتایا کہ مناظر اہلحدیث مولانا عبدالقاد روپڑی رحمہ اللہ پر مدمقابل مناظر نے یہی اعتراض کیا کہ مرزا قادیانی اہلحدیث تھا؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ : "خراب ہمیشہ دودھ ہی ہوتا ہے، پیشاب کبھی خراب نہیں ہوتا"
حقیقت کیا ہے؟
معزز قارئین!حقیقت یہ ہے کہ مرزا قادیانی دعویٰ نبوت سے قبل اور بعد میں بھی حنفی رہا اور حنفیت کی تعریف سے رطب اللسان تھا، بلکہ لوگوں کو حنفیت کی تعلیم دیتا رہا۔ لیکن باری ہے سب سے پہلے اصول وعقائد کی اس لیئے ہم بات کی ابتدا٫ کرتے ہیں عقائد سے آئندہ سطور میں ہم ثابت کریں گے کہ مرزا جی اور احناف کے عقائد میں ہم آہنگی ہے۔
(۱) غیر اللہ کو پکارنا
مرزا قادیانی مشکل اور مصیبت کے وقت پڑھا کرتا تھا :
اے سید الوریٰ مددے وقت نصرت است
یعنی اے رسول اللہ! آپ کی امت پر نازک گھڑی آئی ہوئی ہے میری مدد کو تشریف لائیے کہ یہ نصرت کا وقت ہے۔(سیرت المہدی ص ۵۵ ج ۳)
یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ :
صلی اللہ علیک یا رسول اللہ وسلمک اللہ یا رسول اللہ (ایضًا)
حاجی امداد اللہ صاحب دیوبندی کے اشعار بھی بلکل اسی طرز کے ہیں کہ :
سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل اے میرے مشکل کشا فریاد ہے
(کلیات امدایہ ص ۹۱)
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
دستگیری کیجئے میرے نبی کشمکش میں تم ہی ہو میرے نبی
بجز تمہارے ہے کہاں میری پناہ فوج کلفت مجھ پر آ غالب ہوئی
ابن عبداللہ زمانہ ہے خلاف اے میرے مولا خبر لیجئے میری
میں ہوں بس اور آپکا دریا رسول ابرغم گھیرےنہ پھر مجھ کو کبھی
(نشر الطیب ص ۱۵۶)
دیوبندیوں کے نزدیک علی رضی للہ عنہ بھی مشکل کشا ہیں (کلیات امدایہ ص ۱۰۳) مزید دیکھئے فضائل درود ۳۷۲)
بریلوی حضرات کے نزدیک تو یہ عقیدہ مسلمہ ہے۔
(۲) قبر پرستی
"مرزا قادیانی نے ایک بزرگ کی قبر پر دعا مانگی تو صاحب قبر اپنی قبر سے نکل کر دوزانو ہوکر ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ مرزا نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم نہ ہوتے تو میں ان سے باتیں بھی کرلیتا۔" الخ (سیرۃ المہدی ج ۱ ۷۱)
"بعض لوگ قبروں پر سے کپڑے اتار کر لے جاتے تھے جب مرزا قادیانی کو معلوم ہوا تو اس نے اس کام کو ناجائز قرار دیا تب یہ لوگ باز آگئے۔"(سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۲۶۴)
چہلم کے بارے میں مرزا کی ایک حکایت ہے کہ: یہ جو چہلم کی رسم ہے یعنی مردے کے مرنے سے چالیسویں دن کھانا کھلا کر تقسیم کرتے ہیں غیر مقلد اسکے بہت مخالف ہیں۔۔۔۔۔۔ اس پر مرزا نے کہا فرمایا کہ چالیسویں دن غربا٫ میں کھانا تقسیم کرنے میں یہ حکمت ہے کہ مردے کی روح کے رخصت ہونے کا دن ہے پس جسطرح لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ دیا جاتا ہے اسی طرح مردے کی روح کی رخصت پر بھی غربا٫ میں کھانا دیا جاتا ہے تاکہ اسے اسکا ثواب پہنچے۔" (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۱۸۳)
"مرزا بزرگوں کے عجیب و غریب کشف اور چلہ کشی وغیرہ کا بھی قائل تھا۔" (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۶۹-۷۰-۸۱-۸۲- تریاق القلوب ۶۲)
"مرزا کے والد کی قبر پختہ بنائی گئی اور مسجد کے صحن میں دفن کیا گیا۔ "( سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۱۷۸)
قارئین کرام! ان عقائد کا حامل شخص اہلحدیث کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ عقائد تو حنفیت کی دونوں شاخوں بریلویوں اور دیوبندیوں کےپاس مسلمہ ہیں جن سے ان کے اکابر کی کتابیں بھری پڑی ہیں،چنانچہ حاجی امداد اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ :
"ایک صاحب کشف شخص حضرت حافظ صاحب کے مزار پر فاتحہ پڑھنے لگے۔ بعد فاتحہ کہنے لگے: بھائی! یہ کون بزرگ ہیں؟ بڑے دل لگی باز ہیں جب میں فاتحہ پڑھنے لگا تو مجھ سے فرمانے لگے کہ جاؤ کسی مردہ پر فاتحہ پڑھیو یہاں زندوں پر فاتحہ پڑھنے آئے ہو یہ کیا بات ہے۔" (ارواح ثلاثہ ۱۸۱ حکایت نمبر ۲۰۵)
اسی قسم کے مزیدواقعات کے لئے تبلیغی جماعت کے رہنما مولوی زکریا کی کتاب فضائل صدقات ص ۵۶۲-۵۷۱-۵۷۲- ملاحظہ فرمائیں۔
نیز دیوبندیوں کے نزدیک قبر کی مٹی سے شفا حاصل ہوتی ہے۔ (حکایات اولیا٫ حکایت نمبر ۳۶۶)
عقیدہ کے بارے میں علی الاطلاق مرزائیت کا یہ پیغام ہے کہ: "احمدیت کا سیدھا سادہ عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو حضرت امام ابوحنیفہ کا تھا" (پیغام احمدیت ص ۱۶)
عقیدہ کے دیگر مسائل
مرزا کے نزدیک بزرگوں کو دیکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ (سیرۃ المہدی ج۲ ص۹۸) اور دیوبندیوں کے نزدیک بھی بزرگ کم درجہ نہیں رکھتے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:
" واللہ العظیم مولانا تھانوی کے پاؤں دھوکر پینا نجات اخروی کا سبب ہے (تذکرۃ الرشید ج ۱ ص ۱۱۳) اور دیوبندیوں کے نزدیک حق وہی ہے جو رشید احمد گنگوہی کی زبان سے نکلتا ہے (تذکرۃ الرشید ج ۲ ص ۱۷)
مرزا نے لکھا ہے کہ: ہمارے نبی ﷺکا اکثر اولیا٫ سے عین بیداری کی حالت میں ملاقات کرنا کتابوں میں بھرا پڑا ہے اور مؤلف رسالہ ہذٰا (خود مرزا)بھی کئی دفعہ اس شرف سے مشرف ہوچکا ہے۔ (ازالہ اوہام ص ۹۴)
اسی طرح دیوبندی مولوی علی میاں نے سید احمد شہید کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے بیداری کی حالت میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ۔ (تاریخ دعوت وعزیمت ج ۱ ص ۱۲۸ حصہ ششم)
مرزا قادیانی اپنے آپکو رحمۃ للعالمین کہتا ہے (تذکرۃ الشہادتین ص ۳)
اور دیوبندیوں کے نزدیک حاجی امداد اللہ رحمۃ للعالمین ہیں (قصص الاکابر ص ۶۹)
جبکہ اللہ رب العالمین اپنی پیاری کتاب قرآن مجید میں محمد رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (107) (الانبیا٫)
ہم نے آپکو رحمۃ للعالمین بناکر مبعوث فرمایا
قارئین کرام! مندرجہ بالا عقائد میں مرزا قادیانی نے حنفیت کی خوب تائید کر رکھی ہے۔ نجات کی بنیاد عقیدہ پر ہے، سب انبیا٫ کی پہلی دعوت عقیدہ توحید کی دعوت ہے اور اہلحدیث کا مرزائیوں، حنفیوں بریلویوں اور دیوبندیوں سے اصل اختلاف عقیدے میں ہے۔
عقائد میں مرزا قادیانی نے احناف کی اتنی موافقت کر رکھی ہے کہ علما٫ احناف بھی اسے تسلیم کر رہے ہیں چنانچہ بریلوی حضرات کے مرشد و محبوب خواجہ غلام فرید چشتی حنفی فرماتے ہیں کہ : وہ (مرزاقادیانی) اہل سنت و جماعت کے عقائد و ضروریات دین کا ہرگز منکر نہیں ہے۔ "(اشارات فریدی حصہ سوم ص ۶۰)
دیوبندیوں کے حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی کے سامنے کسی شخص نے مرزا کے لئے سخت الفاظ استعمال کیے تو انہوں نے اسے برا محسوس کیا۔ حضرت (تھانوی) نے لہجہ بدل کر ارشاد فرمایا کہ" یہ زیادتی ہے، توحید میں ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں" ۔۔۔۔۔۔ الخ (سچی باتیں ص ۲۱۳)
امام اعظم کون ہیں؟
اہلحدیث کے نزدیک امام اعظم محمد رسول اللہ ﷺ ہیں چنانچہ محدث دیار سندھ شیخ العرب والعجم الامام السید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
" خبردار! اہلحدیث کا کوئی بھی امام نہیں ہے بلکہ صرف ایک امام یعنی امام اعظم جناب رسالت مآب محمد ﷺ ہیں۔" (مروجہ فقہ کی حقیقت (سندھی) ص ۴۶)
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سندھ کی عظیم منھجی جماعت، جمعیت اہلحدیث سندھ کی بنیاد رکھی تو اس کے منشور میں باقاعدہ یہ نکہی شامل فرمایا کہ:
"صرف محمد ﷺ کو امام اعظم تسلیم کرنا" (توحید ربانی سندھی)
دوسری طرف حنفی ،امام ابو حنیفہ کے "امام اعظم" ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، اس نام سے کانفرنسیں بھی منعقد کرتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس مسئلے میں احناف کی تائید کر رکھی ہے چنانچہ اس نے ازالہ اوہام ص ۱۹۸ میں امام ابوحنیفہ کو امام اعظم لکھا ہے اور امام صاحب کے احادیث کی طرف کم التفات کرنے کی عجیب و غریب تاویلیں کی ہیں اور ان کی تعریف میں رطب اللسان ہے، مرزا بشیر لکھتا ہے کہ: حضرت مسیح موعود (مرزا) یوں تو سارے اماموں کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر امام ابوحنیفہ صاحب کو خصوصیت کے ساتھ علم و معرفت میں بڑھا ہوا سمجھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی بہت تعریف فرماتے تھے۔ (سیرت المہدی ص ۴۹ ج ۲) بلکہ اجتہاد، علم اور درایت اور فہم و فراست میں باقی ائمہ ثلاثہ سے افضل و اعلیٰ تھے۔ (ازالہ اوہام ص ۱۹۸)
اہلحدیث بھی امام ابوحنیفہ کی عزت کرتے ہیں مگر تعریف میں اتنا غلو ایک حنفی ہی کرسکتا ہے!
عقیدہ ختم نبوت
عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں لیکن حنفی مولویوں کی کتابوں میں ایسی عبارتیں موجود ہیں جن سے اس عظیم الشان عقیدے پر حرف آتا ہے چنانچہ"حضرت غوث علی شاہ قلندری قادری" کی ملفوظات مولوی گل حسن شاہ قادری نے "تذکرہ غوثیہ" کے نام سے مرتب کی ہے جس کے صفحہ ۳۲۴ میں ہے کہ: حضرت ابوبکر شبلی کی خدمت میں دو شخص بارادہ بیعت حاضر ہوئے ان میں سے ایک کو فرمایا کہ کہو: لا الٰہ الا اللہ شبلی رسول اللہ اس نے کہا اجی لاحول ولاقوۃ الا باللہ آپ نے بھی یہی کلمہ پڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے شخص کو بلایا اور فرمایا کہو لا الٰہ الّا اللہ شبلی رسول اللہ اس نے جواب دیا کہ حضرت میں تو آپ کو کچھ اور ہی سمجھ کے آیا تھا آپ تو درے ہی پر گر پڑے رسالت پر ہی قناعت کی (یعنی میں آپ کو رسالت سے بڑھ کر سمجھ کر آیا تھا)
مولوی اشرف علی دیوبندی کے ایک مرید نے خواب دیکھا کہ وہ خواب میں کہہ رہا ہے لا الٰہ الَّا اللہ اشرف علی رسول اللہ اور پھر اٹھ کر بھی اس کے منہ سے درود پڑھتے ہوئے محمد ﷺ کی بجائے مولانا اشرف علی نکلتا ہے۔ (رسالہ امداد ص ۳۵ بحوالہ دیو بیت ص ۱۹۰)
جب مرید نے خواب بیان کیا تو مولوی اشرف علی نے بجائے اسے ڈانٹنے اور ایمان کی تجدید کروانے کے اسے ان الفاظ سے حوصلہ دیا کہ "اس واقعے میں تسلی تھی کہ جسکی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے"۔
مولوی رشید احمد گنگوہی نے کہا: اور یہ قسم (سے) کہتا ہوں کہ جو کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانے میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر (تذکرۃ الرشید ج ۲ ص ۱۷)
ایک بریلوی مولوی محمد اصغر علوی اپنے اعلیٰ حضرت احمد رضا کے بارے میں لکھتا ہے کہ: غیر شرعی لفظ زبان مبارک پر نہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے ہر لغزش سے آپکو محفوظ رکھا۔ (مقدمہ فتاویٰ رضویہ ج ۲ ص ۶)
اندازہ لگائیے کہ معصوم عن الخطا ہونا تو انبیا٫ کرام کی شان ہے! احمد رضا کے سونے کے انداز کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
اپنی کروٹ اس طرح لیٹتے تھے کہ دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھتے اور پاؤں سمیٹ کر سوتے اس طرح سر "میم" کہنیاں "ح" کمر "میم" اور پاؤں "دال" گویا نام محمد (ﷺ) کا نقشہ بن جاتا اسطرح سونے سے فائدہ یہ ہے کہ ستر ہزار فرشتے رات بھر نام مبارک کے گرد درود شریف پڑھتے ہیں (فتاویٰ رضویہ ج ۲ ص ۱۶)
بلکہ ص ۱۱ پر یہ بھی لکھا ہے کہ: انی لاجد نور اللہ فی ہٰذا الجبین (بیشک اللہ کا نور اس (احمد رضا کی) پیشانی میں پاتا ہوں)۔
قارئین کرام! خاتم النبیین کے معنیٰ میں بھی ان لوگوں نے تحریف کر رکھی ہے چنانچہ ملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں:
اذا المعنیٰ لایاتی نبي بعدہ ینسخ ملتہ (موضوعات کبیر ص ۱۰۰)
یعنی خاتم النبیین کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہ آئے گا کہ جو آپ ﷺ کے دین کو منسوخ کردے۔
اس کا معنیٰ تو یہ ہے کہ شریعت کو منسوخ کرنے والا نبی نہیں آسکتا لیکن شریعت محمدی کو منسوخ نہ کرنے والا نبی آسکتا ہے۔ مرزا کے بارے میں کیا خیال ہے اس نے بھی ظلی، بروزی اور شارح نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا؟
مولوی قاسم نانوتوی فرماتے ہیں اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور نبی ہو تو جب بھی آپکا خاتم ہونا بدستور باقی ہے۔ (تحذیر الناس ۱۸)
دیوبندیوں کے نزدیک سات زمینیں ہیں ہر زمین میں ہمارے نبی جیسا نبی ہے۔ (تحذیر الناس ص ۴)
قاری طیب دیوبندی لکھتے ہیں کہ: حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نبوت بخشی بھی نکلتی ہے جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آگیا نبی ہوگیا (آفتاب نبوت ص ۸۲)
خام النبیین کا بعینہ یہی معنیٰ مرزا قادیانی نے کیا ہے لکھتا ہے:
آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا گیا یعنی آپکو افاضہ کمال کے لیئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھرا یعنی آپکی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے (حقیقۃ الوحی ص ۹۷ روحانی خزائن ص ۱۰۰ ج ۲۲)
تقلید اور مرزا قادیانی
جس طرح احناف تقلید کے دلدادہ ہیں مرزا قادیانی بھی اسی طرح تقلید کو ضروری تصور کرتا ہے چنانچہ لکھا ہے: ہمارا مذہب وہابیوں کے برخلاف ہے ہمارے نزدیک تقلید کو چھوڑنا ایک قباحت ہےکیونکہ ہر ایک شخص مجتہد نہیں ہے۔
آج کل جو لوگ بگڑے ہوئے ہیں اسکی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑدی گئی۔ (روحانی خزائن ج ۲ ص ۳۳۲۔۳۳۳)
یعنی مرزا کے نزدیک وہابی وہ ہیں جو تقلید کو چھوڑ دیتے ہیں اسلیئے ان وہابیوں سے اعلان برأت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : مجھے یہ خواہش کبھی نہیں ہوئی کہ مجھے وہابی کہا جائے اور میرا نام کسی کتاب میں وہابی نہ نکلے گا۔ (روحانی خزائں ۲ ج ۴ ص ۴۰۳)
ایک مولوی مرزا کے پاس آیا اور الگ ملاقات کی خواہش ظاہر کی جب وہ آپ سے ملا تو باتوں باتوں میں اسنے کئی دفعہ یہ کہا کہ میں حنفی ہوں اور تقلید کو اچھا سمجھتا ہوں و غیر ذالک آپ نے اس سے فرمایا کہ ہم کوئی حنفیوں کے خلاف تو نہیں ہیں کہ آپ بار بار اپنے حنفی ہونےاظہار کرتے ہیں میں تو ان چار اماموں کو مسلمانوں کے لیئے بطور چار دیواری کے سمجھتا ہوں جسکی وجہ سے وہ منتشر اور پرا گندہ ہونے سے بچ گئے ہیں ہر شخص اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا کہ دینی امور میں اجتہاد کرے اگر یہ ائمہ نہ ہوتے تو ہر اہل و نا اہل آزادانہ طور پر اپنا طریق اختیار کرتا اور امت محمدیہ میں ایک اختلاف کی عظیم صورت قائم ہو جاتی، ان ائمہ نے مسلمانوں کو پراگندہ ہوجانے سے محفوظ رکھا ہم ان کی قدر کرتے ہیں ان کی بزرگی اور احسان کے معترف ہیں یہ امام مسلمانوں کے لیئے بطور چار دیواری کے رہے ہیں۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۴۹)
قارئین کرام!مرزانے تقلید کی تعلیم کتنے ہی "خوبصورت " انداز میں پیش کی ہے کیا یہ انداز کسی اہلحدیث کا ہو سکتا ہے؟
یعنی مرزا کے نزدیک ان ائمہ کی تقلید کو چھوڑنا انتشار، پراگندگی، آزادی اور اختلاف کا باعث ہے!
اب ان چاروں مذاہب میں سے جو مذہب مرزا نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیئے پسند کیا وہ حنفی مذہب ہے۔
مرزا قادیانی حنفی مناظر کی حیثیت سے
مولانا محمد حسین بٹالوی کے مقابلے میں حنفیوں نے مرزا قادیانی کو مناظر مقرر کیا اس نے حنفی اور وہابی مسائل پر شیخ محمد حسین بٹالوی سے مناظرہ کیا اور رسوا ہوا۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۹۱)
مرزا کی حنفیت سے محبت
یہ بات پیچھے گذر چکی ہے کہ مرزا لفظ وہابی وغیر مقلد اہلحدیث کے لیئے استعمال کرتا تھا چنانچہ لکھا ہے کہ نواب ناصر وہابی مذہب کے تھے اور مرزا صاحب اہل سنت و الجماعت تھے ان کے درمیان اپنے اپنے مذاہب پر بحث مباحثہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ (سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۱۷۸)
مرزا کا بیٹا مرزا بشیر لکھتا ہے کہ: اصولا آپ ہمیشہ اپنے آپکو حنفی ظاہر فرماتے تھے آپ نے اپنے لیئے کسی زمانہ میں بھی اہل حدیث کا نام پسند نہیں فرمایا (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۴۹)
مرزا خود لکھتا ہے کہ: ہمارے ہاں جو آتا ہے اسے پہلے حنفیت کا رنگ چڑہانا پڑتا ہے میرے خیال میں یہ چاروں مذاہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں اور اسلام کے واسطے ایک چار دیواری (ملفوظات مرزا غلام احمد ج ۲ ص ۳۳)
مولوی محمد علی لاہوری نے لکھا: حضرت مرزا صاحب ابتدا٫ سے لیکر آخر زندگی تک علی الاعلان حنفی المذہب رہے (تحریک احمدیت ص ۱۱)
مرزا حنفیت کا داعی و مبلغ
نہ صرف یہ کہ مرزا خود حنفی تھا بلکہ حنفیت کا داعی اور مبلغ بھی تھا۔
چنانچہ مرزا بشیر لکھتا ہے کہ: مرزا نے مولوی نور الدین صاحب کو یہ لکھا کہ آپ یہ فرمادیں کہ میں حنفی المذہب ہوں حالانکہ آپ جانتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب عقیدتا اہلحدیث تھے حضرت مولوی صاحب نے اس کے جواب میں حضرت (مرزا) صاحب کی خدمت میں ایک کارڈ ارسال کیا جس میں لکھا:
بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغان گوید
کہ سالک بے خبر نبود زادہ و رسم منزلہا
اور اس کے نیچے نور الدین حنفی کے الفاظ لکھ دیئے ۔۔۔۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جو شعر لکھا تھا کہ اگرچہ میں اپنی رائے میں تو اہل حدیث ہوں لیکن چونکہ میرا پیر طریقت (مرزا) کہتا ہے کہ اپنے آپ کو حنفی کہو اسلیئے میں اس کی رائے پر اپنی رائے کو قربان کرتا ہوا اپنے آپکو حنفی کہتا ہوں (سیرت الہدی ج ۲ ص ۴۸) مرزا نے مولوی نور الدین پر حنفیت کا ایسا رنگ چڑھایا کہ اس نے لکھا کہ: کتاب وسنت پر ہمارا عمل ہے اگر بتصریح وہاں مسئلہ نہ ملے تو فقہ حنفیہ پر اس ملک میں عمل کرلیتے ہیں (مرقاۃ الیقین فی حیاۃ نور الدین ص ۳۲)
اوپر مذکور واقعہ میں نور الدین کے الفاظ کہ: میرا پیر طریقت کہتا ہے کہ اپنے آپکو حنفی کہو اسلیئے میں اپنی رائے کو اسکی رائے پر قربان کرتا ہوں" اسکی مقلدانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں نیز مرزا کے دامن تزویر میں پھنسنے سے پہلے ہی نورا لدین کے اصول وہی تھے جو احناف کے ہیں (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۴۸)
مرزا کا اہلحدیث سے بغض
اوپر یہ حوالہ گذر چکا ہے کہ مرزا کو لقب اہلحدیث سے نفرت تھی، اس نے کسی زمانہ میں بھی اہلحدیث کا نام پسند نہیں کیا ۔مرزا کے اصول و قواعد اہلحدیث سے الگ تھلگ ہیں چنانچہ وہ خود لکھتا ہے کہ: ہم اہلحدیث کی اصطلاحات سے الگ ہوکر بات کرتے ہیں یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جبکہ یہ رسمی محدثین کا طریقہ ہے۔ (مسیح موعود حکم کاریو :۶)
مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نےاہلحدیث کے دس امتیازی مسائل، رفع الیدین آمین وغیرہ کے ثبوت کے بارے میں ایک اشتہار شایع کیا، اس اشتہار کے بارے میں مرزا نے کہا کہ دیکھو یہ کیسا فضول اشتہار ہے جب نماز ہر طرح ہوجاتی ہے تو ان باتوں کا تنازعہ موجب فساد ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۴۴-۴۵) رسول اللہ ﷺ کی سنت کے دفاع میں شایع کردہ اشتہار کو فضول اور موجب فساد قرار دینا اہل تقلید کا طریقہ کار ہے اور مرزا کی نبی کریم ﷺ کی پیاری سنتوں سے دشمنی اور اہلحدیث سے بغض و نفرت کی واضح دلیل ہے۔
مرزا قادیانی نےجہاد کی حرمت کا فتویٰ دیا تھا اور اہلحدیث اس فتویٰ کے سخت مخالف تھے اس واقعے کو تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے مرزا لکھتا ہے کہ:
اور پنجاب کے شر انگیز بعض آدمی جو اپنے تئیں موحد یا اہلحدیث کے نام سے موسوم کرتے تھے امیر کے پاس پہنچ گئے تھے۔۔۔۔۔ (تذکرۃ الشہادتین ص ۵۱)
مندرجہ بالہ عبارت میں مرزا نے اہلحدیث کو شر انگیز قرار دیا ہے اس سے واضح ہے کہ مرزا کو اہلحدیث سے سخت نفرت تھی۔
ایک شخص فتح خان کے بارے میں لکھا ہے کہ: فتح خان رسولپور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا اور حضور (مرزا) کا بڑا معتقد تھا مگر بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہوگیا۔ (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۶۹)
اس عبارت سےواضح ہے کہ علما٫ اہلحدیث کا یہ کام تھا کہ عام مسلمانوں اور خصوصًا مرزا کے معتقدین کو اس کےچنگل سے چھڑا کر مسلمان اہلحدیث بناتے تھے جنہیں مرزا مرتد قرار دے رہا ہے یعنی علما٫ اہلحدیث سے تعلق اور ان کے زیر اثر آنا اور اہلحدیث ہونا مرزا کےنزدیک "مرتد "ہونا ہے۔
اسی لیئے مولانا محمد حسین بٹالوی کو اول المکفرین اور مولانا ثنا٫ اللہ امر تسری کو اشد المعاندین قرار دیا ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۴۸ – ۱۰۷)
مرزا کہتا ہے : محمد حسین بٹالوی نےمجھے سب سےپہلے کافر قرار دیا، سب سے پہلے استفتا٫ کا کاغذ ہاتھ میں لے کر ہر ایک طرف یہی بٹالوی صاحب دوڑے چنانچہ سب سے پہلے کافر و مرتد ٹہرانے میں جہاں نذیر حسین دہلوی نے قلم اٹھائی اور بٹالوی صاحب کے استفتا٫ کو اپنی کفرئی شہادت سے مزین کیا اور میاں نذید حسین نے جو اس عاجز کو بلا توقف و تامل کافر ٹہرایا۔ (انجام آتھم: ۲۱۲، آئینہ کمالات اسلام ص ۳۱)
اہلحدیث کے امتیازی مسائل اور مرزا قادیانی
پچھلی سطور میں یہ بات باحوالہ گذر چکی ہے مرزا نےاہلحدیث کے دس امتیازی مسائل کے اشتھار کو فضول و موجب فساد قرار دیا، مرزا کا بیٹا لکھتا ہے کہ:
ایک سچے احمدی کی نماز وہ نہیں جیسی ایک عام (حنفی) مسلمان پڑھتا ہے؟ شکل وہی ہے (پیغام احمدیت ص ۴۱)
مرزا اہلحدیث کی نماز پر حنفیوں کی طرح مذاق کیا کرتا تھا اور سنت کے مطابق نماز پڑھنے والے کو ٹوکتا تھا۔ چنانچہ عبداللہ سنوری مرتد ہونے سے قبل آمین بالجھر، رفع الیدین وغیرہ کیا کرتا تھا وہ بیان کرتا ہے کہ: ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا میاں عبداللہ! اب تو اس سنت پر بہت عمل ہو چکا ہے! اور اشارہ رفع الیدین کیطرف تھا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع الیدین کرنا ترک کردیا بلکہ آمین بالجھر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت (مرزا) صاحب کو کبھی رفع یدین کرتے یا آمین بالجھر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللہ بالجھر پڑھتے سنا ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۱۶۲)
شب برأت وغیرہ کے موقع پر کھیل و تفریح کے لیئے گھر میں آتش بازی کے انار وغیرہ منگاکر چلالیا کرتے تھے، آپ کے سامنے آتش بازی ہوتی دیکھتے رہتے مگر منع نہیں کرتے تھے بعض دفعہ اس کے لیئے پیسے بھی دیتے تھے۔ رسوم کو کلی طور پر اہلحدیث کی طرح رد نہیں کر دیتے تھے۔۔۔۔ ان میں کوئی نہ کوئی توجیہ فوائد کی نکال لیتے تھے۔ (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۵۵، ۵۶ ج ۳ ۲۳۱)
مرزا قادیانی نماز کی نیت باندھتے وقت اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں تک پہنچاتے تھے یعنی یہ دونوں آپس میں چھوجاتے تھے۔ (سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۲۳۱)
ایک شخص میاں حبیب اللہ نے مرزا قادیانی کےساتھ نماز پڑھی اور اپنا پاؤں اس کے ساتھ ملانا چاہا تو مرزا نے اپنا پاؤں اپنی طرف سرکا لیا جس پر میاں حبیب اللہ بہت شرمندہ ہوا۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۲۹)
اہلحدیث کے نماز میں پاؤں سے پاؤں، ٹخنے سے ٹخنہ، کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہونے پر مرزا کا بیٹا اس طرح تبصرہ کرتا ہے کہ: مگر اس پر اہل حدیث نے اتنا زور دیا اور اس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ یہ مسئلہ ایک مضحکہ خیز بات بن گئی اب گویا ایک اہلحدیث کی نماز ہو نہیں سکتی جب تک وہ اپنے ساتھ والے نمازی سے کندھے سے کندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ اور پاؤں سے پاؤں رگڑاتے ہوئے نماز ادا نہ کرے حالانکہ اس قدر قرب بجائے مفید ہونے کے نماز میں خوامخواہ پریشانی کا موجب ہوتا ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۳۰)
قارئین کرام! نوٹ فرمائیں کہ سنتوں پر سختی سے عمل کرنے کو مضحکہ خیز اور باعث پریشانی قرار دینا تقلیدی ذہنیت نہیں تو اور کیا ہے؟
مرزا اپنے بیعت کرنے والوں کو کہتا تھا کہ: نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں (سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۱۴)
یہی مسئہی فقہ حنفی کی کتاب ہدایہ اولین ص ۱۵۱ مین ہے کہ :
فان افتتح الصلاۃ بالفاسیۃ او قرأ فیہا بالفارسیۃ او ذبح وسمٰی بالفارسیۃ وہو یحسن العربیۃ اجزاہ عند ابی حنیفۃ
یعنی جو شخص عربی زبان اچھی طرح سے جانتا بھی ہو پھر بھی نماز فارسی میں پڑھے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک نماز جائز ہوگی۔
تمام اہل حدیث کا نظریہ یہ ہے کہ جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اسکی نماز نہیں ہوتی اس کے برخلاف مرزا کہتا ہے کہ: میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اسکی نماز نہیں ہوتی کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیا٫ اللہ ایسے گذرے ہیں جو سورہ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے اور میں ان کی نمازوں کو ضائع شدہ نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ان کی نماز نہ ہوئی تو وہ اولیا٫ کیسے ہوگئے چونکہ ہمیں امام اعظم سے ایک طرح کی مناسبت ہے اور ہمیں امام اعظم کا بہت ادب ہے ہم یہ فتویٰ نہیں دے سکتے کہ نماز نہیں ہوتی۔ آپ (مرزا) غالی اہل حدیث کی طرح یہ نہیں فرماتے تھے کہ جو شخص سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اسکی نماز نہیں ہوتی۔ (تذکرۃ المہدی حصہ اول ص ۳۵۳۔ سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۴۹- ۵۰)
مرزا اپنی داڑھی کے زیادہ بڑھے ہوئے بالوں کو قینچی سے کتروا دیا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکا یہ منشا٫ نہیں کہ داڑھی کی کوئی خاص مقدار شریعت نے مقرر کردی ہے۔ اس قسم کی جزئی باتوں میں شریعت دخل نہیں دیتی بلکہ شخصی مناسبت اور پسندیدگی پر چھوڑ دیتی ہے۔ منشا٫ صرف یہ ہے کہ داڑھی منڈوائی نہ جاوے بلکہ رکھی جاوے لیکن داڑھی کا بہت زیادہ لمبا کرنا بھی پسند نہیں کیا گیا چنانچہ مرزا کہتا تھا کہ ایک مشت و دو انگشت کے اندازہ سے زیادہ بڑھی ہوئی داڑھی کتروادینی مناسب ہے۔ جسکی وجہ غالبًا یہ ہے کہ بہت لمبی داڑھی خلاف زینت ہوتی ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۵۴)
داڑھی کے بارے میں مندرجہ بالا نظریہ مقلدین احناف کا ہے۔
مرزا کا مصافحہ کرنے کا طریقہ ایسا تھا جو عام طور پر رائج ہے۔ اہلحدیث والا مصافحہ نہیں کرتا تھا۔ (سیرت المہدی ج ۳ ص ۲۰۶)
مرزا قادیانی مس ذکر سے وضو٫ کے ٹوٹنے کا قائل نہ تھا۔ (سیرت المہدی ج ۲ ص ۳۶)
آخر میں ہم صرف اتنا ہی عرض کر دیتے ہیں کہ:
کون کہتا ہے حنفیت و مرزائیت میں جدائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
کی مزید وضاحت کرے گا
اس مضمون کے رائیٹر مولانا حزب اللہ صاحب ہیں اورمضمون یہ ماہنامہ دعوت اھل حدیث حیدرآباد ختم نبوت نمبر زینت اشاعت بن چکا ہے
کیا مرزا قادیانی حنفی تھا؟
حنفی مذہب کی کہانی بہت ہی عجیب ہے چناچہ علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی فرماتےہیں:
فکم من حنفی حنفی فی الفروع معتزلی عقیدۃ کالز محشری جا راللہ مؤلف الکشاف وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکم من حنفی حنفی فرعا مرجی او زیدی اصلاً وبالجملۃ فالحنفیۃ لہا فروع باعتبار اختلاف العقیدۃ فمنہم الشیعۃ ومنہم المعتزلۃ ومنہم المرجئۃ۔ (الرفع والتکمیل فی الجرح والتعدیل ص ۲۷۔ دوسرا نسخہ ص ۳۸۵۔۶۸۳ بتحقیق ابی غدہ)
"عقیدہ کے اعتبار سے حنفی مذہب کی کئی شاخیں اور فروع ہیں ۔بہت سارے حنفی شیعہ، معتزلہ اور مرجئہ ہیں، درحقیقت حنفی فرقہ وہ جماعت ہے جو فروعی مسائل اور شرعی اعمال میں امام ابو حنفیہ کی تقلید کرتے ہیں اگرچہ ان کا عقیدہ امام صاحب کے موافق ہو یا نہ ہو، اگر موافق ہوگا تو وہ کامل حنفی کہلائے گا مگر جو دوسرے فرقوں کے موافق عقیدہ رکھے گا وہ بھی حنفی ہی کہلائے گا لیکن اس کےعقیدے کی وضاحت کی جائے گی، اس طرز پر بہت سارے لوگ فروعی مسائل میں حنفی ہیں اور عقیدہ کے اعتبار سے معتزلی مثلًا زمخشری، نجم الدین الزاہدی، عبدالجبار، ابو ہاشم اور جبائی وغیرہم، اسی طرح کتنے ہی فروعی مسائل میں حنفی ہیں اور اصولی مسائل کے اعتبار سے مرجیہ اور زیدی شیعہ ہیں۔"
اسی طرح احناف کے مرشدو ممدوح شیخ عبدالقادر جیلانی نے بہتر (۷۲) گمراہ فرقوں کی تفصیل ان کے ناموں کے ساتھ لکھی ہے ،مرجئہ فرقہ کی بارہ شاخوں میں سے ایک "حنفیہ" کو قرار دیا ہے اور حنفیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
وام الحنفیۃ فہم بعض اصحاب ابی حنیفۃ النعمان بن ثابت زعموان الایمان ہو المعرفۃ والاقرار بااللہ ورسولہ۔۔۔۔۔
یعنی حنفیہ، ابو حنیفہ کے بعض اصحاب کا نام ہے جن کا نظریہ یہ ہے کہ ایمان اللہ اور اس کے رسول ﷺکی معرفت اور اقرار کا نام ہے۔
شیخ جیلانی فرقہ ناجیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
واما الفرقۃ الناجیۃ فہی اہل السنۃ والجماعۃ ۔۔۔۔۔ وما اسمہم الّا اصحاب الحدیث واہل السنۃ۔
یعنی فرقہ ناجیہ اہل النسۃ والجماعۃ ہے جن کا نام اصحاب الحدیث (اھل الحدیث) اور اہل السنۃ ہی ہے۔ (غنیۃ الطالبین ص ۲۱۴- ۲۲۱، ۲۲۲ )
یعنی حنفیہ شیخ جیلانی کے نزدیک گمراہ فرقوں میں سے ہے جن کا اہل السنۃ والجماعۃ سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔
اسی لئے شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "میں یہ بات علیٰ وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ موجودہ تمام مذہبی فتنوں مثلاً عیسائی مشنری، کمیونزم تحریک، چکڑالوی، انکار حدیث، مرزائی، شیعہ وغیرہ کی بنیاد فقہ حنفی کی کتابوں میں ملتی ہے۔ پھر اگرچہ کسی نے پَر سے پرندہ بنایا ہو، لیکن اس پَر کا وجود فقہ حنفی میں ہوتا ہے۔" (مروجہ فقہ کی حقیقت (سندھی) ص ۳۰)
قارئین کرام: اس کے برعکس آج کل دیوبندیوں اور بریلویوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مرزاقادیانی اہلحدیث تھا اس کی مثال "الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے" کی طرح ہے، مرزا اگر اہلحدیث ہوتا تو دعویٰ الوہیت، نبوت، مسیحیت وغیرہ کبھی نہ کرتا کیونکہ ائمہ کرام کے نزدیک اہلحدیث کی تعریف ہی یہی ہے کہ:
صاحب الحدیث عندنا من یستعمل الحدیث۔ (مناقب الامام احمد بن حنبل ص ۸۰۲)
"یعنی ہمارے نزدیک اہلحدیث وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کی حدیث پرعمل پیرا ہو" جب کہ احادیث میں تو اس قسم کے دعوؤں کو کفر و شرک کہا گیا ہے۔تو مرزا کا اہلحدیث ہونا محال ہے۔
اصولی جواب
اہلحدیث کے عظیم سپوت مولانا پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: اگر بفرض ومحال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ مرتد ہونے سے پہلے یہ لوگ اہلحدیث تھے۔ تو اس سے اہلحدیث پر کیا حرف آتا ہے؟ آپ لوگ مقلد ہیں جو ایسی بے عقلی کی باتیں کرتے ہیں اگر تقلید نے آپ کی مت نہ ماردی ہوتی تو ایسی احمقانہ باتیں کبھی نہ کرتے، آپ بتائیں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں میں سے جو مرتد ہوئے ان سے آپ ﷺ یا جماعت صحابہ پر کوئی حرف آیا؟ شیطان کے راندہ درگاہ ہونے سے جماعت ملائکہ پر کوئی اثر پڑا؟ اگر اسلام سے کوئی منحرف ہوجائے تو اسلام پر کوئی دھبہ آسکتا ہے؟ کسی کے راہ حق سے ہٹ جانےسے راہ حق خراب نہیں ہوتی بلکہ صاف ہوجاتی ہے۔ جب ایک مسلمان اقالہ بیعت کرکے مدینہ چھوڑ کر جانے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ مدینہ بھٹی ہے یہ منافق اور گندے کو برداشت نہیں کرتا۔ جس کے اندر گند ہوتا ہے وہ حق کو چھوڑ جاتا ہے اس سے حق پر طعن نہیں آتا، دیوبندی حضرات احمد رضا خان بریلوی کو کیا سمجھتے ہیں؟ ان کے نزدیک وہ امام الضالین والمضلین نہ تھے؟ اسی طرح بریلوی حضرات رشید احمد گنگوہی، اشرف علی تھانوی اور دیگر دیوبندی اکابرین کو ان سے کم "القابات" سے نہیں نوازتے۔ ان کا ظہور حنفیت میں ہی ہوا اور حنفیت میں ہی پروان چڑھے حنیتس کو ہی انہوں نے چار چاند لگائے ۔ آپ بتائیں ان کی وجہ سے کیا حنفیت پلید ہوگئی؟ اگر ان کے ظہور سے حنفیت کو کچھ نہیں ہوا تو مرزا یا کسی اور کے خروج سے اہلحدیث کو کیا ہوجائے گا؟" (رسائل بہاولپوری ص ۱۸۳ بتصرف یسیر)
ہمارے استاد فضلۃو الشیخ حافظ محمد سلیم صاحب حفظہ اللہ )شیخ الحدیث المعہد السلفی کراچی( نے بتایا کہ مناظر اہلحدیث مولانا عبدالقاد روپڑی رحمہ اللہ پر مدمقابل مناظر نے یہی اعتراض کیا کہ مرزا قادیانی اہلحدیث تھا؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ : "خراب ہمیشہ دودھ ہی ہوتا ہے، پیشاب کبھی خراب نہیں ہوتا"
حقیقت کیا ہے؟
معزز قارئین!حقیقت یہ ہے کہ مرزا قادیانی دعویٰ نبوت سے قبل اور بعد میں بھی حنفی رہا اور حنفیت کی تعریف سے رطب اللسان تھا، بلکہ لوگوں کو حنفیت کی تعلیم دیتا رہا۔ لیکن باری ہے سب سے پہلے اصول وعقائد کی اس لیئے ہم بات کی ابتدا٫ کرتے ہیں عقائد سے آئندہ سطور میں ہم ثابت کریں گے کہ مرزا جی اور احناف کے عقائد میں ہم آہنگی ہے۔
(۱) غیر اللہ کو پکارنا
مرزا قادیانی مشکل اور مصیبت کے وقت پڑھا کرتا تھا :
اے سید الوریٰ مددے وقت نصرت است
یعنی اے رسول اللہ! آپ کی امت پر نازک گھڑی آئی ہوئی ہے میری مدد کو تشریف لائیے کہ یہ نصرت کا وقت ہے۔(سیرت المہدی ص ۵۵ ج ۳)
یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ :
صلی اللہ علیک یا رسول اللہ وسلمک اللہ یا رسول اللہ (ایضًا)
حاجی امداد اللہ صاحب دیوبندی کے اشعار بھی بلکل اسی طرز کے ہیں کہ :
سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل اے میرے مشکل کشا فریاد ہے
(کلیات امدایہ ص ۹۱)
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
دستگیری کیجئے میرے نبی کشمکش میں تم ہی ہو میرے نبی
بجز تمہارے ہے کہاں میری پناہ فوج کلفت مجھ پر آ غالب ہوئی
ابن عبداللہ زمانہ ہے خلاف اے میرے مولا خبر لیجئے میری
میں ہوں بس اور آپکا دریا رسول ابرغم گھیرےنہ پھر مجھ کو کبھی
(نشر الطیب ص ۱۵۶)
دیوبندیوں کے نزدیک علی رضی للہ عنہ بھی مشکل کشا ہیں (کلیات امدایہ ص ۱۰۳) مزید دیکھئے فضائل درود ۳۷۲)
بریلوی حضرات کے نزدیک تو یہ عقیدہ مسلمہ ہے۔
(۲) قبر پرستی
"مرزا قادیانی نے ایک بزرگ کی قبر پر دعا مانگی تو صاحب قبر اپنی قبر سے نکل کر دوزانو ہوکر ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ مرزا نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم نہ ہوتے تو میں ان سے باتیں بھی کرلیتا۔" الخ (سیرۃ المہدی ج ۱ ۷۱)
"بعض لوگ قبروں پر سے کپڑے اتار کر لے جاتے تھے جب مرزا قادیانی کو معلوم ہوا تو اس نے اس کام کو ناجائز قرار دیا تب یہ لوگ باز آگئے۔"(سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۲۶۴)
چہلم کے بارے میں مرزا کی ایک حکایت ہے کہ: یہ جو چہلم کی رسم ہے یعنی مردے کے مرنے سے چالیسویں دن کھانا کھلا کر تقسیم کرتے ہیں غیر مقلد اسکے بہت مخالف ہیں۔۔۔۔۔۔ اس پر مرزا نے کہا فرمایا کہ چالیسویں دن غربا٫ میں کھانا تقسیم کرنے میں یہ حکمت ہے کہ مردے کی روح کے رخصت ہونے کا دن ہے پس جسطرح لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ دیا جاتا ہے اسی طرح مردے کی روح کی رخصت پر بھی غربا٫ میں کھانا دیا جاتا ہے تاکہ اسے اسکا ثواب پہنچے۔" (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۱۸۳)
"مرزا بزرگوں کے عجیب و غریب کشف اور چلہ کشی وغیرہ کا بھی قائل تھا۔" (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۶۹-۷۰-۸۱-۸۲- تریاق القلوب ۶۲)
"مرزا کے والد کی قبر پختہ بنائی گئی اور مسجد کے صحن میں دفن کیا گیا۔ "( سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۱۷۸)
قارئین کرام! ان عقائد کا حامل شخص اہلحدیث کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ عقائد تو حنفیت کی دونوں شاخوں بریلویوں اور دیوبندیوں کےپاس مسلمہ ہیں جن سے ان کے اکابر کی کتابیں بھری پڑی ہیں،چنانچہ حاجی امداد اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ :
"ایک صاحب کشف شخص حضرت حافظ صاحب کے مزار پر فاتحہ پڑھنے لگے۔ بعد فاتحہ کہنے لگے: بھائی! یہ کون بزرگ ہیں؟ بڑے دل لگی باز ہیں جب میں فاتحہ پڑھنے لگا تو مجھ سے فرمانے لگے کہ جاؤ کسی مردہ پر فاتحہ پڑھیو یہاں زندوں پر فاتحہ پڑھنے آئے ہو یہ کیا بات ہے۔" (ارواح ثلاثہ ۱۸۱ حکایت نمبر ۲۰۵)
اسی قسم کے مزیدواقعات کے لئے تبلیغی جماعت کے رہنما مولوی زکریا کی کتاب فضائل صدقات ص ۵۶۲-۵۷۱-۵۷۲- ملاحظہ فرمائیں۔
نیز دیوبندیوں کے نزدیک قبر کی مٹی سے شفا حاصل ہوتی ہے۔ (حکایات اولیا٫ حکایت نمبر ۳۶۶)
عقیدہ کے بارے میں علی الاطلاق مرزائیت کا یہ پیغام ہے کہ: "احمدیت کا سیدھا سادہ عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو حضرت امام ابوحنیفہ کا تھا" (پیغام احمدیت ص ۱۶)
عقیدہ کے دیگر مسائل
مرزا کے نزدیک بزرگوں کو دیکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ (سیرۃ المہدی ج۲ ص۹۸) اور دیوبندیوں کے نزدیک بھی بزرگ کم درجہ نہیں رکھتے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:
" واللہ العظیم مولانا تھانوی کے پاؤں دھوکر پینا نجات اخروی کا سبب ہے (تذکرۃ الرشید ج ۱ ص ۱۱۳) اور دیوبندیوں کے نزدیک حق وہی ہے جو رشید احمد گنگوہی کی زبان سے نکلتا ہے (تذکرۃ الرشید ج ۲ ص ۱۷)
مرزا نے لکھا ہے کہ: ہمارے نبی ﷺکا اکثر اولیا٫ سے عین بیداری کی حالت میں ملاقات کرنا کتابوں میں بھرا پڑا ہے اور مؤلف رسالہ ہذٰا (خود مرزا)بھی کئی دفعہ اس شرف سے مشرف ہوچکا ہے۔ (ازالہ اوہام ص ۹۴)
اسی طرح دیوبندی مولوی علی میاں نے سید احمد شہید کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے بیداری کی حالت میں رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ۔ (تاریخ دعوت وعزیمت ج ۱ ص ۱۲۸ حصہ ششم)
مرزا قادیانی اپنے آپکو رحمۃ للعالمین کہتا ہے (تذکرۃ الشہادتین ص ۳)
اور دیوبندیوں کے نزدیک حاجی امداد اللہ رحمۃ للعالمین ہیں (قصص الاکابر ص ۶۹)
جبکہ اللہ رب العالمین اپنی پیاری کتاب قرآن مجید میں محمد رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (107) (الانبیا٫)
ہم نے آپکو رحمۃ للعالمین بناکر مبعوث فرمایا
قارئین کرام! مندرجہ بالا عقائد میں مرزا قادیانی نے حنفیت کی خوب تائید کر رکھی ہے۔ نجات کی بنیاد عقیدہ پر ہے، سب انبیا٫ کی پہلی دعوت عقیدہ توحید کی دعوت ہے اور اہلحدیث کا مرزائیوں، حنفیوں بریلویوں اور دیوبندیوں سے اصل اختلاف عقیدے میں ہے۔
عقائد میں مرزا قادیانی نے احناف کی اتنی موافقت کر رکھی ہے کہ علما٫ احناف بھی اسے تسلیم کر رہے ہیں چنانچہ بریلوی حضرات کے مرشد و محبوب خواجہ غلام فرید چشتی حنفی فرماتے ہیں کہ : وہ (مرزاقادیانی) اہل سنت و جماعت کے عقائد و ضروریات دین کا ہرگز منکر نہیں ہے۔ "(اشارات فریدی حصہ سوم ص ۶۰)
دیوبندیوں کے حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی کے سامنے کسی شخص نے مرزا کے لئے سخت الفاظ استعمال کیے تو انہوں نے اسے برا محسوس کیا۔ حضرت (تھانوی) نے لہجہ بدل کر ارشاد فرمایا کہ" یہ زیادتی ہے، توحید میں ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں" ۔۔۔۔۔۔ الخ (سچی باتیں ص ۲۱۳)
امام اعظم کون ہیں؟
اہلحدیث کے نزدیک امام اعظم محمد رسول اللہ ﷺ ہیں چنانچہ محدث دیار سندھ شیخ العرب والعجم الامام السید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
" خبردار! اہلحدیث کا کوئی بھی امام نہیں ہے بلکہ صرف ایک امام یعنی امام اعظم جناب رسالت مآب محمد ﷺ ہیں۔" (مروجہ فقہ کی حقیقت (سندھی) ص ۴۶)
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سندھ کی عظیم منھجی جماعت، جمعیت اہلحدیث سندھ کی بنیاد رکھی تو اس کے منشور میں باقاعدہ یہ نکہی شامل فرمایا کہ:
"صرف محمد ﷺ کو امام اعظم تسلیم کرنا" (توحید ربانی سندھی)
دوسری طرف حنفی ،امام ابو حنیفہ کے "امام اعظم" ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، اس نام سے کانفرنسیں بھی منعقد کرتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس مسئلے میں احناف کی تائید کر رکھی ہے چنانچہ اس نے ازالہ اوہام ص ۱۹۸ میں امام ابوحنیفہ کو امام اعظم لکھا ہے اور امام صاحب کے احادیث کی طرف کم التفات کرنے کی عجیب و غریب تاویلیں کی ہیں اور ان کی تعریف میں رطب اللسان ہے، مرزا بشیر لکھتا ہے کہ: حضرت مسیح موعود (مرزا) یوں تو سارے اماموں کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر امام ابوحنیفہ صاحب کو خصوصیت کے ساتھ علم و معرفت میں بڑھا ہوا سمجھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی بہت تعریف فرماتے تھے۔ (سیرت المہدی ص ۴۹ ج ۲) بلکہ اجتہاد، علم اور درایت اور فہم و فراست میں باقی ائمہ ثلاثہ سے افضل و اعلیٰ تھے۔ (ازالہ اوہام ص ۱۹۸)
اہلحدیث بھی امام ابوحنیفہ کی عزت کرتے ہیں مگر تعریف میں اتنا غلو ایک حنفی ہی کرسکتا ہے!
عقیدہ ختم نبوت
عقیدہ ختم نبوت قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں لیکن حنفی مولویوں کی کتابوں میں ایسی عبارتیں موجود ہیں جن سے اس عظیم الشان عقیدے پر حرف آتا ہے چنانچہ"حضرت غوث علی شاہ قلندری قادری" کی ملفوظات مولوی گل حسن شاہ قادری نے "تذکرہ غوثیہ" کے نام سے مرتب کی ہے جس کے صفحہ ۳۲۴ میں ہے کہ: حضرت ابوبکر شبلی کی خدمت میں دو شخص بارادہ بیعت حاضر ہوئے ان میں سے ایک کو فرمایا کہ کہو: لا الٰہ الا اللہ شبلی رسول اللہ اس نے کہا اجی لاحول ولاقوۃ الا باللہ آپ نے بھی یہی کلمہ پڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے شخص کو بلایا اور فرمایا کہو لا الٰہ الّا اللہ شبلی رسول اللہ اس نے جواب دیا کہ حضرت میں تو آپ کو کچھ اور ہی سمجھ کے آیا تھا آپ تو درے ہی پر گر پڑے رسالت پر ہی قناعت کی (یعنی میں آپ کو رسالت سے بڑھ کر سمجھ کر آیا تھا)
مولوی اشرف علی دیوبندی کے ایک مرید نے خواب دیکھا کہ وہ خواب میں کہہ رہا ہے لا الٰہ الَّا اللہ اشرف علی رسول اللہ اور پھر اٹھ کر بھی اس کے منہ سے درود پڑھتے ہوئے محمد ﷺ کی بجائے مولانا اشرف علی نکلتا ہے۔ (رسالہ امداد ص ۳۵ بحوالہ دیو بیت ص ۱۹۰)
جب مرید نے خواب بیان کیا تو مولوی اشرف علی نے بجائے اسے ڈانٹنے اور ایمان کی تجدید کروانے کے اسے ان الفاظ سے حوصلہ دیا کہ "اس واقعے میں تسلی تھی کہ جسکی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ متبع سنت ہے"۔
مولوی رشید احمد گنگوہی نے کہا: اور یہ قسم (سے) کہتا ہوں کہ جو کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانے میں ہدایت و نجات موقوف ہے میرے اتباع پر (تذکرۃ الرشید ج ۲ ص ۱۷)
ایک بریلوی مولوی محمد اصغر علوی اپنے اعلیٰ حضرت احمد رضا کے بارے میں لکھتا ہے کہ: غیر شرعی لفظ زبان مبارک پر نہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے ہر لغزش سے آپکو محفوظ رکھا۔ (مقدمہ فتاویٰ رضویہ ج ۲ ص ۶)
اندازہ لگائیے کہ معصوم عن الخطا ہونا تو انبیا٫ کرام کی شان ہے! احمد رضا کے سونے کے انداز کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
اپنی کروٹ اس طرح لیٹتے تھے کہ دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھتے اور پاؤں سمیٹ کر سوتے اس طرح سر "میم" کہنیاں "ح" کمر "میم" اور پاؤں "دال" گویا نام محمد (ﷺ) کا نقشہ بن جاتا اسطرح سونے سے فائدہ یہ ہے کہ ستر ہزار فرشتے رات بھر نام مبارک کے گرد درود شریف پڑھتے ہیں (فتاویٰ رضویہ ج ۲ ص ۱۶)
بلکہ ص ۱۱ پر یہ بھی لکھا ہے کہ: انی لاجد نور اللہ فی ہٰذا الجبین (بیشک اللہ کا نور اس (احمد رضا کی) پیشانی میں پاتا ہوں)۔
قارئین کرام! خاتم النبیین کے معنیٰ میں بھی ان لوگوں نے تحریف کر رکھی ہے چنانچہ ملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں:
اذا المعنیٰ لایاتی نبي بعدہ ینسخ ملتہ (موضوعات کبیر ص ۱۰۰)
یعنی خاتم النبیین کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہ آئے گا کہ جو آپ ﷺ کے دین کو منسوخ کردے۔
اس کا معنیٰ تو یہ ہے کہ شریعت کو منسوخ کرنے والا نبی نہیں آسکتا لیکن شریعت محمدی کو منسوخ نہ کرنے والا نبی آسکتا ہے۔ مرزا کے بارے میں کیا خیال ہے اس نے بھی ظلی، بروزی اور شارح نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا؟
مولوی قاسم نانوتوی فرماتے ہیں اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور نبی ہو تو جب بھی آپکا خاتم ہونا بدستور باقی ہے۔ (تحذیر الناس ۱۸)
دیوبندیوں کے نزدیک سات زمینیں ہیں ہر زمین میں ہمارے نبی جیسا نبی ہے۔ (تحذیر الناس ص ۴)
قاری طیب دیوبندی لکھتے ہیں کہ: حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نبوت بخشی بھی نکلتی ہے جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آگیا نبی ہوگیا (آفتاب نبوت ص ۸۲)
خام النبیین کا بعینہ یہی معنیٰ مرزا قادیانی نے کیا ہے لکھتا ہے:
آنحضرت ﷺ کو صاحب خاتم بنایا گیا یعنی آپکو افاضہ کمال کے لیئے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھرا یعنی آپکی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے (حقیقۃ الوحی ص ۹۷ روحانی خزائن ص ۱۰۰ ج ۲۲)
تقلید اور مرزا قادیانی
جس طرح احناف تقلید کے دلدادہ ہیں مرزا قادیانی بھی اسی طرح تقلید کو ضروری تصور کرتا ہے چنانچہ لکھا ہے: ہمارا مذہب وہابیوں کے برخلاف ہے ہمارے نزدیک تقلید کو چھوڑنا ایک قباحت ہےکیونکہ ہر ایک شخص مجتہد نہیں ہے۔
آج کل جو لوگ بگڑے ہوئے ہیں اسکی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑدی گئی۔ (روحانی خزائن ج ۲ ص ۳۳۲۔۳۳۳)
یعنی مرزا کے نزدیک وہابی وہ ہیں جو تقلید کو چھوڑ دیتے ہیں اسلیئے ان وہابیوں سے اعلان برأت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : مجھے یہ خواہش کبھی نہیں ہوئی کہ مجھے وہابی کہا جائے اور میرا نام کسی کتاب میں وہابی نہ نکلے گا۔ (روحانی خزائں ۲ ج ۴ ص ۴۰۳)
ایک مولوی مرزا کے پاس آیا اور الگ ملاقات کی خواہش ظاہر کی جب وہ آپ سے ملا تو باتوں باتوں میں اسنے کئی دفعہ یہ کہا کہ میں حنفی ہوں اور تقلید کو اچھا سمجھتا ہوں و غیر ذالک آپ نے اس سے فرمایا کہ ہم کوئی حنفیوں کے خلاف تو نہیں ہیں کہ آپ بار بار اپنے حنفی ہونےاظہار کرتے ہیں میں تو ان چار اماموں کو مسلمانوں کے لیئے بطور چار دیواری کے سمجھتا ہوں جسکی وجہ سے وہ منتشر اور پرا گندہ ہونے سے بچ گئے ہیں ہر شخص اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا کہ دینی امور میں اجتہاد کرے اگر یہ ائمہ نہ ہوتے تو ہر اہل و نا اہل آزادانہ طور پر اپنا طریق اختیار کرتا اور امت محمدیہ میں ایک اختلاف کی عظیم صورت قائم ہو جاتی، ان ائمہ نے مسلمانوں کو پراگندہ ہوجانے سے محفوظ رکھا ہم ان کی قدر کرتے ہیں ان کی بزرگی اور احسان کے معترف ہیں یہ امام مسلمانوں کے لیئے بطور چار دیواری کے رہے ہیں۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۴۹)
قارئین کرام!مرزانے تقلید کی تعلیم کتنے ہی "خوبصورت " انداز میں پیش کی ہے کیا یہ انداز کسی اہلحدیث کا ہو سکتا ہے؟
یعنی مرزا کے نزدیک ان ائمہ کی تقلید کو چھوڑنا انتشار، پراگندگی، آزادی اور اختلاف کا باعث ہے!
اب ان چاروں مذاہب میں سے جو مذہب مرزا نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیئے پسند کیا وہ حنفی مذہب ہے۔
مرزا قادیانی حنفی مناظر کی حیثیت سے
مولانا محمد حسین بٹالوی کے مقابلے میں حنفیوں نے مرزا قادیانی کو مناظر مقرر کیا اس نے حنفی اور وہابی مسائل پر شیخ محمد حسین بٹالوی سے مناظرہ کیا اور رسوا ہوا۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۹۱)
مرزا کی حنفیت سے محبت
یہ بات پیچھے گذر چکی ہے کہ مرزا لفظ وہابی وغیر مقلد اہلحدیث کے لیئے استعمال کرتا تھا چنانچہ لکھا ہے کہ نواب ناصر وہابی مذہب کے تھے اور مرزا صاحب اہل سنت و الجماعت تھے ان کے درمیان اپنے اپنے مذاہب پر بحث مباحثہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ (سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۱۷۸)
مرزا کا بیٹا مرزا بشیر لکھتا ہے کہ: اصولا آپ ہمیشہ اپنے آپکو حنفی ظاہر فرماتے تھے آپ نے اپنے لیئے کسی زمانہ میں بھی اہل حدیث کا نام پسند نہیں فرمایا (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۴۹)
مرزا خود لکھتا ہے کہ: ہمارے ہاں جو آتا ہے اسے پہلے حنفیت کا رنگ چڑہانا پڑتا ہے میرے خیال میں یہ چاروں مذاہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں اور اسلام کے واسطے ایک چار دیواری (ملفوظات مرزا غلام احمد ج ۲ ص ۳۳)
مولوی محمد علی لاہوری نے لکھا: حضرت مرزا صاحب ابتدا٫ سے لیکر آخر زندگی تک علی الاعلان حنفی المذہب رہے (تحریک احمدیت ص ۱۱)
مرزا حنفیت کا داعی و مبلغ
نہ صرف یہ کہ مرزا خود حنفی تھا بلکہ حنفیت کا داعی اور مبلغ بھی تھا۔
چنانچہ مرزا بشیر لکھتا ہے کہ: مرزا نے مولوی نور الدین صاحب کو یہ لکھا کہ آپ یہ فرمادیں کہ میں حنفی المذہب ہوں حالانکہ آپ جانتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب عقیدتا اہلحدیث تھے حضرت مولوی صاحب نے اس کے جواب میں حضرت (مرزا) صاحب کی خدمت میں ایک کارڈ ارسال کیا جس میں لکھا:
بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغان گوید
کہ سالک بے خبر نبود زادہ و رسم منزلہا
اور اس کے نیچے نور الدین حنفی کے الفاظ لکھ دیئے ۔۔۔۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جو شعر لکھا تھا کہ اگرچہ میں اپنی رائے میں تو اہل حدیث ہوں لیکن چونکہ میرا پیر طریقت (مرزا) کہتا ہے کہ اپنے آپ کو حنفی کہو اسلیئے میں اس کی رائے پر اپنی رائے کو قربان کرتا ہوا اپنے آپکو حنفی کہتا ہوں (سیرت الہدی ج ۲ ص ۴۸) مرزا نے مولوی نور الدین پر حنفیت کا ایسا رنگ چڑھایا کہ اس نے لکھا کہ: کتاب وسنت پر ہمارا عمل ہے اگر بتصریح وہاں مسئلہ نہ ملے تو فقہ حنفیہ پر اس ملک میں عمل کرلیتے ہیں (مرقاۃ الیقین فی حیاۃ نور الدین ص ۳۲)
اوپر مذکور واقعہ میں نور الدین کے الفاظ کہ: میرا پیر طریقت کہتا ہے کہ اپنے آپکو حنفی کہو اسلیئے میں اپنی رائے کو اسکی رائے پر قربان کرتا ہوں" اسکی مقلدانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں نیز مرزا کے دامن تزویر میں پھنسنے سے پہلے ہی نورا لدین کے اصول وہی تھے جو احناف کے ہیں (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۴۸)
مرزا کا اہلحدیث سے بغض
اوپر یہ حوالہ گذر چکا ہے کہ مرزا کو لقب اہلحدیث سے نفرت تھی، اس نے کسی زمانہ میں بھی اہلحدیث کا نام پسند نہیں کیا ۔مرزا کے اصول و قواعد اہلحدیث سے الگ تھلگ ہیں چنانچہ وہ خود لکھتا ہے کہ: ہم اہلحدیث کی اصطلاحات سے الگ ہوکر بات کرتے ہیں یعنی ہم حدیث اور سنت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جبکہ یہ رسمی محدثین کا طریقہ ہے۔ (مسیح موعود حکم کاریو :۶)
مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نےاہلحدیث کے دس امتیازی مسائل، رفع الیدین آمین وغیرہ کے ثبوت کے بارے میں ایک اشتہار شایع کیا، اس اشتہار کے بارے میں مرزا نے کہا کہ دیکھو یہ کیسا فضول اشتہار ہے جب نماز ہر طرح ہوجاتی ہے تو ان باتوں کا تنازعہ موجب فساد ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۴۴-۴۵) رسول اللہ ﷺ کی سنت کے دفاع میں شایع کردہ اشتہار کو فضول اور موجب فساد قرار دینا اہل تقلید کا طریقہ کار ہے اور مرزا کی نبی کریم ﷺ کی پیاری سنتوں سے دشمنی اور اہلحدیث سے بغض و نفرت کی واضح دلیل ہے۔
مرزا قادیانی نےجہاد کی حرمت کا فتویٰ دیا تھا اور اہلحدیث اس فتویٰ کے سخت مخالف تھے اس واقعے کو تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے مرزا لکھتا ہے کہ:
اور پنجاب کے شر انگیز بعض آدمی جو اپنے تئیں موحد یا اہلحدیث کے نام سے موسوم کرتے تھے امیر کے پاس پہنچ گئے تھے۔۔۔۔۔ (تذکرۃ الشہادتین ص ۵۱)
مندرجہ بالہ عبارت میں مرزا نے اہلحدیث کو شر انگیز قرار دیا ہے اس سے واضح ہے کہ مرزا کو اہلحدیث سے سخت نفرت تھی۔
ایک شخص فتح خان کے بارے میں لکھا ہے کہ: فتح خان رسولپور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا اور حضور (مرزا) کا بڑا معتقد تھا مگر بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہوگیا۔ (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۶۹)
اس عبارت سےواضح ہے کہ علما٫ اہلحدیث کا یہ کام تھا کہ عام مسلمانوں اور خصوصًا مرزا کے معتقدین کو اس کےچنگل سے چھڑا کر مسلمان اہلحدیث بناتے تھے جنہیں مرزا مرتد قرار دے رہا ہے یعنی علما٫ اہلحدیث سے تعلق اور ان کے زیر اثر آنا اور اہلحدیث ہونا مرزا کےنزدیک "مرتد "ہونا ہے۔
اسی لیئے مولانا محمد حسین بٹالوی کو اول المکفرین اور مولانا ثنا٫ اللہ امر تسری کو اشد المعاندین قرار دیا ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۴۸ – ۱۰۷)
مرزا کہتا ہے : محمد حسین بٹالوی نےمجھے سب سےپہلے کافر قرار دیا، سب سے پہلے استفتا٫ کا کاغذ ہاتھ میں لے کر ہر ایک طرف یہی بٹالوی صاحب دوڑے چنانچہ سب سے پہلے کافر و مرتد ٹہرانے میں جہاں نذیر حسین دہلوی نے قلم اٹھائی اور بٹالوی صاحب کے استفتا٫ کو اپنی کفرئی شہادت سے مزین کیا اور میاں نذید حسین نے جو اس عاجز کو بلا توقف و تامل کافر ٹہرایا۔ (انجام آتھم: ۲۱۲، آئینہ کمالات اسلام ص ۳۱)
اہلحدیث کے امتیازی مسائل اور مرزا قادیانی
پچھلی سطور میں یہ بات باحوالہ گذر چکی ہے مرزا نےاہلحدیث کے دس امتیازی مسائل کے اشتھار کو فضول و موجب فساد قرار دیا، مرزا کا بیٹا لکھتا ہے کہ:
ایک سچے احمدی کی نماز وہ نہیں جیسی ایک عام (حنفی) مسلمان پڑھتا ہے؟ شکل وہی ہے (پیغام احمدیت ص ۴۱)
مرزا اہلحدیث کی نماز پر حنفیوں کی طرح مذاق کیا کرتا تھا اور سنت کے مطابق نماز پڑھنے والے کو ٹوکتا تھا۔ چنانچہ عبداللہ سنوری مرتد ہونے سے قبل آمین بالجھر، رفع الیدین وغیرہ کیا کرتا تھا وہ بیان کرتا ہے کہ: ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا میاں عبداللہ! اب تو اس سنت پر بہت عمل ہو چکا ہے! اور اشارہ رفع الیدین کیطرف تھا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع الیدین کرنا ترک کردیا بلکہ آمین بالجھر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت (مرزا) صاحب کو کبھی رفع یدین کرتے یا آمین بالجھر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللہ بالجھر پڑھتے سنا ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۱۶۲)
شب برأت وغیرہ کے موقع پر کھیل و تفریح کے لیئے گھر میں آتش بازی کے انار وغیرہ منگاکر چلالیا کرتے تھے، آپ کے سامنے آتش بازی ہوتی دیکھتے رہتے مگر منع نہیں کرتے تھے بعض دفعہ اس کے لیئے پیسے بھی دیتے تھے۔ رسوم کو کلی طور پر اہلحدیث کی طرح رد نہیں کر دیتے تھے۔۔۔۔ ان میں کوئی نہ کوئی توجیہ فوائد کی نکال لیتے تھے۔ (سیرۃ المہدی ج ۱ ص ۵۵، ۵۶ ج ۳ ۲۳۱)
مرزا قادیانی نماز کی نیت باندھتے وقت اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں تک پہنچاتے تھے یعنی یہ دونوں آپس میں چھوجاتے تھے۔ (سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۲۳۱)
ایک شخص میاں حبیب اللہ نے مرزا قادیانی کےساتھ نماز پڑھی اور اپنا پاؤں اس کے ساتھ ملانا چاہا تو مرزا نے اپنا پاؤں اپنی طرف سرکا لیا جس پر میاں حبیب اللہ بہت شرمندہ ہوا۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۲۹)
اہلحدیث کے نماز میں پاؤں سے پاؤں، ٹخنے سے ٹخنہ، کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہونے پر مرزا کا بیٹا اس طرح تبصرہ کرتا ہے کہ: مگر اس پر اہل حدیث نے اتنا زور دیا اور اس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ یہ مسئلہ ایک مضحکہ خیز بات بن گئی اب گویا ایک اہلحدیث کی نماز ہو نہیں سکتی جب تک وہ اپنے ساتھ والے نمازی سے کندھے سے کندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ اور پاؤں سے پاؤں رگڑاتے ہوئے نماز ادا نہ کرے حالانکہ اس قدر قرب بجائے مفید ہونے کے نماز میں خوامخواہ پریشانی کا موجب ہوتا ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۳۰)
قارئین کرام! نوٹ فرمائیں کہ سنتوں پر سختی سے عمل کرنے کو مضحکہ خیز اور باعث پریشانی قرار دینا تقلیدی ذہنیت نہیں تو اور کیا ہے؟
مرزا اپنے بیعت کرنے والوں کو کہتا تھا کہ: نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں (سیرۃ المہدی ج ۳ ص ۱۴)
یہی مسئہی فقہ حنفی کی کتاب ہدایہ اولین ص ۱۵۱ مین ہے کہ :
فان افتتح الصلاۃ بالفاسیۃ او قرأ فیہا بالفارسیۃ او ذبح وسمٰی بالفارسیۃ وہو یحسن العربیۃ اجزاہ عند ابی حنیفۃ
یعنی جو شخص عربی زبان اچھی طرح سے جانتا بھی ہو پھر بھی نماز فارسی میں پڑھے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک نماز جائز ہوگی۔
تمام اہل حدیث کا نظریہ یہ ہے کہ جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اسکی نماز نہیں ہوتی اس کے برخلاف مرزا کہتا ہے کہ: میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اسکی نماز نہیں ہوتی کیونکہ بہت سے بزرگ اور اولیا٫ اللہ ایسے گذرے ہیں جو سورہ فاتحہ کی تلاوت ضروری نہیں سمجھتے تھے اور میں ان کی نمازوں کو ضائع شدہ نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ان کی نماز نہ ہوئی تو وہ اولیا٫ کیسے ہوگئے چونکہ ہمیں امام اعظم سے ایک طرح کی مناسبت ہے اور ہمیں امام اعظم کا بہت ادب ہے ہم یہ فتویٰ نہیں دے سکتے کہ نماز نہیں ہوتی۔ آپ (مرزا) غالی اہل حدیث کی طرح یہ نہیں فرماتے تھے کہ جو شخص سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اسکی نماز نہیں ہوتی۔ (تذکرۃ المہدی حصہ اول ص ۳۵۳۔ سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۴۹- ۵۰)
مرزا اپنی داڑھی کے زیادہ بڑھے ہوئے بالوں کو قینچی سے کتروا دیا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔ اسکا یہ منشا٫ نہیں کہ داڑھی کی کوئی خاص مقدار شریعت نے مقرر کردی ہے۔ اس قسم کی جزئی باتوں میں شریعت دخل نہیں دیتی بلکہ شخصی مناسبت اور پسندیدگی پر چھوڑ دیتی ہے۔ منشا٫ صرف یہ ہے کہ داڑھی منڈوائی نہ جاوے بلکہ رکھی جاوے لیکن داڑھی کا بہت زیادہ لمبا کرنا بھی پسند نہیں کیا گیا چنانچہ مرزا کہتا تھا کہ ایک مشت و دو انگشت کے اندازہ سے زیادہ بڑھی ہوئی داڑھی کتروادینی مناسب ہے۔ جسکی وجہ غالبًا یہ ہے کہ بہت لمبی داڑھی خلاف زینت ہوتی ہے۔ (سیرۃ المہدی ج ۲ ص ۵۴)
داڑھی کے بارے میں مندرجہ بالا نظریہ مقلدین احناف کا ہے۔
مرزا کا مصافحہ کرنے کا طریقہ ایسا تھا جو عام طور پر رائج ہے۔ اہلحدیث والا مصافحہ نہیں کرتا تھا۔ (سیرت المہدی ج ۳ ص ۲۰۶)
مرزا قادیانی مس ذکر سے وضو٫ کے ٹوٹنے کا قائل نہ تھا۔ (سیرت المہدی ج ۲ ص ۳۶)
آخر میں ہم صرف اتنا ہی عرض کر دیتے ہیں کہ:
کون کہتا ہے حنفیت و مرزائیت میں جدائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی
الاشتراك في:
التعليقات (Atom)

